Aslam Azad

اسلم آزاد

اسلم آزاد کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری

    کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری میرے سجدوں سے منور ہے تری راہ گزر میری پیشانی پہ روشن ہے صداقت میری اور کچھ دیر یوں ہی مجھ کو تڑپنے دیتے آپ نے چھین لی کیوں ہجر کی لذت میری یہ الگ بات کہ میں فاتح اعظم ٹھہرا ورنہ ہوتی رہی ہر گام ہزیمت ...

    مزید پڑھیے

    وہ کیا ہے کون ہے یہ تو ذرا بتا مجھ کو

    وہ کیا ہے کون ہے یہ تو ذرا بتا مجھ کو کہ جس نے سنگ میں تبدیل کر دیا مجھ کو میں کھو نہ جاؤں کہیں دشت نامرادی میں تو اپنی آنکھوں کی آغوش میں چھپا مجھ کو کسی طرح نہ طلسم سکوت ٹوٹ سکا وہ دے رہا تھا بہت دور سے صدا مجھ کو میں دوسروں کی ملامت کا بوجھ سہہ لوں گا مگر تو اپنی نظر سے نہ یوں ...

    مزید پڑھیے

    کہیں پہ قرب کی لذت کا اقتباس نہیں

    کہیں پہ قرب کی لذت کا اقتباس نہیں ترے خیال کی خوشبو بھی آس پاس نہیں ہزار بار نگاہوں سے چوم کر دیکھا لبوں پہ اس کے وہ پہلی سی اب مٹھاس نہیں سجا کے بوتلیں ٹیبل پہ منتظر ہوں مگر قریب و دور نگاہوں کے وہ گلاس نہیں سمندروں کا یہ نمکین پانی کیسے پیوں پیاسا ہوں مگر اتنی زیادہ پیاس ...

    مزید پڑھیے

    ہر سو دھوئیں کا رقص ہے آج اپنے گاؤں میں

    ہر سو دھوئیں کا رقص ہے آج اپنے گاؤں میں جلتے لہو کی بو ہے سسکتی ہواؤں میں منظر کو دیکھتے ہی وہ بے ہوش ہو گیا جھانکا جو اس نے روح کی اندھی گپھاؤں میں بستر پہ پچھلی رات عجب ماجرا ہوا آنکھیں تھیں بند اڑتا رہا میں خلاؤں میں ساحل کی ریت پر میں کھڑا سوچتا رہا الجھا تھا میرا ذہن ندی کی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شخص ہے مجھ کو تو وہ دوانہ لگے

    عجیب شخص ہے مجھ کو تو وہ دوانہ لگے پکارتا ہوں تو اس کو مری صدا نہ لگے گزر رہا ہے مرے سر سے جو ہوا کی طرح کبھی کبھی تو وہی لمحہ اک زمانہ لگے گلی میں جس پہ ہر اک سمت سے چلے پتھر مجھے وہ شخص کسی طرح بھی برا نہ لگے مزاج اس نے بھی کیسا عجیب پایا ہے ہزار چھیڑ کروں پر اسے برا نہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    آہٹ

    تنہائی کے صحراؤں میں چلتے چلتے اب تو میری آنکھوں کی ویران گلی سے پاؤں کے چھالے بہہ نکلے ہیں اک مدت سے جسم کی دھرتی پیاسی ہے سوکھے کے کارن جیون کے اندھیارے پتھ پر دور تلک سناٹا سا ہے قدموں کی آہٹ بھی نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    انجام

    شام کی دھند آج کیوں گہری ہوئی میرے احساس کی رگ رگ میں یہ نشتر سا لگایا کس نے دور تک پھیل گیا شبنمی لمحوں کا غبار گرم پانی کی مری پلکوں پہ ہوتی رہتی ہے پھوار اور مٹی کا بنا میرا وجود چند لمحوں میں پگھل جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    سزا

    میرا وجود دیوار سنگ و آہن ہے جسے رات بھر یاجوج اور ماجوج اپنی نوکیلی زبان سے چاٹتے رہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    زہر

    شب کا سناٹا اب تو پگھل جائے گا روح کی تیرگی بھی بکھر جائے گی میرے اس آئینہ خانۂ جسم میں کتنے سورج بہ یک وقت در آئے ہیں اب زمیں کی تری خشک ہو جائے گی سانپ کا زہر سارا نکل جائے گا

    مزید پڑھیے

    کتبہ

    مجھ کو یہ احساس ہے میں مر گیا ہوں ٹوٹ کر میں ریزہ ریزہ ہر طرف بکھرا ہوا ہوں پھر بھی اک آواز سائے کی طرح احساس سے چمٹی ہوئی ہے تم ابھی زندہ ہو اور زندہ رہوگے پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں مجھ کو میری قبر کی صورت بنا دو اور میرے نام کا کتبہ لگا دو

    مزید پڑھیے