Aslam Azad

اسلم آزاد

اسلم آزاد کی نظم

    آہٹ

    تنہائی کے صحراؤں میں چلتے چلتے اب تو میری آنکھوں کی ویران گلی سے پاؤں کے چھالے بہہ نکلے ہیں اک مدت سے جسم کی دھرتی پیاسی ہے سوکھے کے کارن جیون کے اندھیارے پتھ پر دور تلک سناٹا سا ہے قدموں کی آہٹ بھی نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    انجام

    شام کی دھند آج کیوں گہری ہوئی میرے احساس کی رگ رگ میں یہ نشتر سا لگایا کس نے دور تک پھیل گیا شبنمی لمحوں کا غبار گرم پانی کی مری پلکوں پہ ہوتی رہتی ہے پھوار اور مٹی کا بنا میرا وجود چند لمحوں میں پگھل جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    سزا

    میرا وجود دیوار سنگ و آہن ہے جسے رات بھر یاجوج اور ماجوج اپنی نوکیلی زبان سے چاٹتے رہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    زہر

    شب کا سناٹا اب تو پگھل جائے گا روح کی تیرگی بھی بکھر جائے گی میرے اس آئینہ خانۂ جسم میں کتنے سورج بہ یک وقت در آئے ہیں اب زمیں کی تری خشک ہو جائے گی سانپ کا زہر سارا نکل جائے گا

    مزید پڑھیے

    کتبہ

    مجھ کو یہ احساس ہے میں مر گیا ہوں ٹوٹ کر میں ریزہ ریزہ ہر طرف بکھرا ہوا ہوں پھر بھی اک آواز سائے کی طرح احساس سے چمٹی ہوئی ہے تم ابھی زندہ ہو اور زندہ رہوگے پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں مجھ کو میری قبر کی صورت بنا دو اور میرے نام کا کتبہ لگا دو

    مزید پڑھیے