آہٹ
تنہائی کے صحراؤں میں چلتے چلتے اب تو میری آنکھوں کی ویران گلی سے پاؤں کے چھالے بہہ نکلے ہیں اک مدت سے جسم کی دھرتی پیاسی ہے سوکھے کے کارن جیون کے اندھیارے پتھ پر دور تلک سناٹا سا ہے قدموں کی آہٹ بھی نہیں ہے
تنہائی کے صحراؤں میں چلتے چلتے اب تو میری آنکھوں کی ویران گلی سے پاؤں کے چھالے بہہ نکلے ہیں اک مدت سے جسم کی دھرتی پیاسی ہے سوکھے کے کارن جیون کے اندھیارے پتھ پر دور تلک سناٹا سا ہے قدموں کی آہٹ بھی نہیں ہے
شام کی دھند آج کیوں گہری ہوئی میرے احساس کی رگ رگ میں یہ نشتر سا لگایا کس نے دور تک پھیل گیا شبنمی لمحوں کا غبار گرم پانی کی مری پلکوں پہ ہوتی رہتی ہے پھوار اور مٹی کا بنا میرا وجود چند لمحوں میں پگھل جاتا ہے
میرا وجود دیوار سنگ و آہن ہے جسے رات بھر یاجوج اور ماجوج اپنی نوکیلی زبان سے چاٹتے رہتے ہیں
شب کا سناٹا اب تو پگھل جائے گا روح کی تیرگی بھی بکھر جائے گی میرے اس آئینہ خانۂ جسم میں کتنے سورج بہ یک وقت در آئے ہیں اب زمیں کی تری خشک ہو جائے گی سانپ کا زہر سارا نکل جائے گا
مجھ کو یہ احساس ہے میں مر گیا ہوں ٹوٹ کر میں ریزہ ریزہ ہر طرف بکھرا ہوا ہوں پھر بھی اک آواز سائے کی طرح احساس سے چمٹی ہوئی ہے تم ابھی زندہ ہو اور زندہ رہوگے پھر بھی میں یہ چاہتا ہوں مجھ کو میری قبر کی صورت بنا دو اور میرے نام کا کتبہ لگا دو