ہر سو دھوئیں کا رقص ہے آج اپنے گاؤں میں
ہر سو دھوئیں کا رقص ہے آج اپنے گاؤں میں
جلتے لہو کی بو ہے سسکتی ہواؤں میں
منظر کو دیکھتے ہی وہ بے ہوش ہو گیا
جھانکا جو اس نے روح کی اندھی گپھاؤں میں
بستر پہ پچھلی رات عجب ماجرا ہوا
آنکھیں تھیں بند اڑتا رہا میں خلاؤں میں
ساحل کی ریت پر میں کھڑا سوچتا رہا
الجھا تھا میرا ذہن ندی کی ہواؤں میں
یوں تو مسافروں کی نہیں ہے کمی یہاں
ٹھہرا نہیں مگر کوئی دل کی سراؤں میں