Aslam Ansari

اسلم انصاری

شاعر اور اردو کے استاد، خواجہ فرید کی کافیوں کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا

Poet and Urdu teacher, translated the kaafis of Khwaja Fareed in Urdu

اسلم انصاری کی غزل

    اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے

    اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے اے دل طلسم گنبد شب میں صدا نہ دے دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے گل کر نہ دے چراغ وفا ہجر کی ہوا طول شب الم مجھے پتھر بنا نہ دے ہم سب اسیر دشت ہویدا ہیں دوستو ہم میں کوئی کسی کو کسی کا پتا نہ دے سب محو نقش ...

    مزید پڑھیے

    وہ نخل جو بار ور ہوئے ہیں

    وہ نخل جو بار ور ہوئے ہیں آشوب خزاں سے ڈر رہے ہیں شاخوں پہ تیر کے زخم ہیں یہ یا پھر سے گلاب جھانکتے ہیں ظلمت میں بہت ہی یاد آئے وہ چاند جو ہم سفر رہے ہیں لے دست ہوس یہ پھول تیرے کانٹے تو وفا نے چن لئے ہیں بدلا نہ نوشتۂ مقدور مکتوب تو ہم نے بھی لکھے ہیں پامال جہاں ہوئے کہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا

    اب اور چلنے کا اس دل میں حوصلہ ہی نہ تھا کہ شہر شب میں اجالے کا شائبہ ہی نہ تھا میں اس گلی میں گیا لے کے زعم رسوائی مگر مجھے تو وہاں کوئی جانتا ہی نہ تھا گداز جاں سے لیا میں نے پھر غزل کا سراغ کہ یہ چراغ تو جیسے کبھی بجھا ہی نہ تھا کوئی پکارے کسی کو تو خود ہی کھو جائے ہوا تو ہے مگر ...

    مزید پڑھیے

    اک برگ برگ دن کی خبر چاہئے مجھے

    اک برگ برگ دن کی خبر چاہئے مجھے میں شاخ شب زدہ ہوں سحر چاہئے مجھے میری طلب دہکتے الاؤ نہ تھے کبھی انبار خس ہوں ایک شرر چاہئے مجھے کب تک سلگتی ریت پہ بے حس پڑا رہوں اس گل زمیں کی سمت سفر چاہئے مجھے سو بار جسم و جاں کو بنانا پڑا سوال اس تجربے سے اب تو حذر چاہئے مجھے وہ ربط دوستی ...

    مزید پڑھیے

    ایک سمندر ایک کنارہ ایک ستارا کافی ہے

    ایک سمندر ایک کنارہ ایک ستارا کافی ہے اس منظر میں اس کے علاوہ کوئی اکیلا کافی ہے دینے والا جھولیاں بھر بھر دیتا ہے تو اس کا کرم لینے والے کب کہتے ہیں داتا اتنا کافی ہے ایک غلط انداز نظر سے گلشن گلشن داغ جلیں شبنم شبنم رلوانے کو ایک ہی جملہ کافی ہے خشک لبوں پر پیاس سجائے بحر ...

    مزید پڑھیے

    وہ رنگ اڑے ہیں کچھ اب کے برس بہاروں کے

    وہ رنگ اڑے ہیں کچھ اب کے برس بہاروں کے کہ دل میں نقش ابھرتے ہیں برف زاروں کے یہ دشت دل یہ بہ ہر سو غبار تنہائی کہاں گئے وہ چمن اجنبی اشاروں کے الجھ گئے ہیں کسی موج اضطراب میں پھر وہ خواب رنگ میں ڈوبے ہوئے کناروں کے چلو کہ اس سے کوئی صاف صاف بات کریں کہ اب تو کھل ہی گئے بھید ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا

    کچھ تو غم خانۂ ہستی میں اجالا ہوتا چاند چمکا ہے تو احساس بھی چمکا ہوتا آئینہ خانۂ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا خود بھی گم ہو گئے ہم اپنی صداؤں کی طرح دشت فرقت میں تجھے یوں نہ پکارا ہوتا حسن اظہار نے رعنائی عطا کی غم کو گل اگر رنگ نہ ہوتا تو شرارہ ...

    مزید پڑھیے

    جب ہمیں اذن تماشا ہوگا

    جب ہمیں اذن تماشا ہوگا تو کہاں انجمن آرا ہوگا ہم نہ پہنچے سر منزل تو کیا ہم سفر کوئی تو پہنچا ہوگا اڑتی ہوگی کہیں خوشبوئے خیال گل معنی کہیں کھلتا ہوگا ہر گل و برگ ہے اک نقش قدم کون اس راہ سے گزرا ہوگا لب تصویر پہ گویا ہے سخن کوئی سن لے تو تماشا ہوگا اب بھی گل پوش دریچے کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2