Aslam Ansari

اسلم انصاری

شاعر اور اردو کے استاد، خواجہ فرید کی کافیوں کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا

Poet and Urdu teacher, translated the kaafis of Khwaja Fareed in Urdu

اسلم انصاری کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا

    خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا ٹھہر کے سن تو سہی غم کی ڈوبتی آواز پلٹ کے دیکھ تو لے منظر شکست وفا تو خواب تھا تو مجھے نیند سے جگایا کیوں تو وہم تھا تو مرے ساتھ ساتھ کیوں نہ چلا کہاں کہاں لیے پھرتا کشاں کشاں مجھ کو لپٹ گیا ہے مرے پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے

    ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے دنیا بھی اک عجیب تماشا دکھائی دے اک عمر قطع وادیٔ شب میں گزر گئی اب تو کہیں سحر کا اجالا دکھائی دے اے موجۂ سراب تمنا ستم نہ کر صحرا ہی سامنے ہے تو صحرا دکھائی دے میں بھی چلا تو پیاس بجھانے کو تھا مگر ساحل کو دیکھتا ہوں کہ پیاسا دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    عین ممکن ہے کسی طرز ادا میں آئے

    عین ممکن ہے کسی طرز ادا میں آئے قصۂ درد وفا صوت و صدا میں آئے رت بدلتے ہی نئے رنگ کے منظر ابھرے کچھ پرندے بھی نئی موج ہوا میں آئے ہم تو آئینہ نما تھے ہی صفا کیشی میں نام کچھ اور بھی ارباب صفا میں آئے عشق تا حال تو متروک نہیں ہو پایا انقلابات بھی گو راہ وفا میں آئے کچھ گل نیلوفری ...

    مزید پڑھیے

    لرز لرز کے دل ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے

    لرز لرز کے دل ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے فراق ساز کہیں روح نغمہ مر ہی نہ جائے اتار لے کسی شیشے میں ساعت نغمہ صدائے قافلۂ گل کہیں بکھر ہی نہ جائے سنا بھی دے کسی گل کو فسون تنہائی رہ خیال سے یہ کارواں گزر ہی نہ جائے ہے ایک قلزم خوں قریۂ جنوں سے ادھر یہاں جو آئے کوئی اس کی پھر خبر ہی ...

    مزید پڑھیے

    غبار احساس پیش و پس کی اگر یہ باریک تہ ہٹائیں

    غبار احساس پیش و پس کی اگر یہ باریک تہ ہٹائیں تو ایک پل میں نہ جانے کتنے زمانوں کے عکس تھرتھرائیں خزاں اگر اپنا خوں نہ بخشے تو فصل گل کیسے سرخ رو ہو سکوت اپنا جگر نہ چیرے تو کیسے جھنکار دیں صدائیں بکھر چلے ہیں بکھر چکے ہیں گل عبارت کے برگ ریزے کتاب جاں کی شہادتوں کا ورق ورق لے ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل

    اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل اس قدر تیز نہ ہو موج سبک خیز کی رو کہیں اشجار کے خیموں کی طنابیں کٹ جائیں زرد پتے ہیں ابھی گلشن ہستی کا سنگھار کہہ رہی ہے یہ ابھی عہد گذشتہ کی بہار رنگ رفتہ ہوں مگر آج بھی تصویر میں ہوں مرتسم ہیں مری شاخوں پہ مری یاد کے چاند میں ہنوز اپنے خیالات کی زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    فقط حرف تمنا کیا ہے

    شام روشن تھی سنہری تھی مگر اتری چلی آتی تھی زینہ زینہ آ کے پھر رک سی گئی شب کی منڈیروں کے قریں اک ستارہ بھی کہیں ساتھ ہی جھک آیا تھا جیسے وہ چھونے کو تھا کانوں کے بالے اس کے گیسوؤں کو بھی کہ تھے رخ کے حوالے اس کے کہنیاں ٹیکے ہوئے ایک دھڑکتی ہوئی دیوار پہ وہ کھلکھلاتے ہوئے کچھ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    مے شکستہ دلی اے حریف‌ ذوق نمو

    مے شکستہ دلی اے حریف‌ ذوق نمو کسی گزشتہ صدی کے اطاق ویراں سے نہ ڈال اور مرے دل پہ سایۂ گیسو وہ عنکبوت جو تار نفس میں جیتے ہیں نہ جانے کیسے در آئے ہیں تیری محفل میں کہ خون یہ بھی ترے رت جگوں کا پیتے ہیں میں جانتا ہوں کسے مل سکی کسے نہ ملی وہ گل سرائے بہشت آفریں مگر پھر بھی مجھے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    ہر چند ہے ذوق کامرانی ہنگامۂ‌‌ زندگی کا باعث ہر چند ہے آگہی کی زد میں یہ حسن گل و مہ و ستارہ ہر چند ہر آرزو کا دھارا گم دشت سراب میں ہوا ہے انجام‌ عمل ہے سرگرانی اک اشک الم ہے زندگانی لیکن نہ رہے اگر جہاں میں تکمیل ہنر کی کوئی صورت دنیا میں کہ بے خیال ساحل طوفاں ہے حیات کی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی ایسا تموج تم نے دیکھا ہے

    کبھی ایسا تموج تم نے دیکھا ہے کبھی جذبات کا ایسا تموج تم نے دیکھا ہے کہ سینے میں بھنور پڑتے ہوں تشنہ آرزوؤں کے مگر ان کو میان موج رستہ بھی نہ ملتا ہو کنارے تک رسائی کا اشارہ بھی نہ ملتا ہو جب ایسا ہو تو ہر چشمے سے دھارے پھوٹ بہتے ہیں وہ سنگ و گل کے پشتے ہوں کہ دریا کے کنارے پھوٹ ...

    مزید پڑھیے