وہ نخل جو بار ور ہوئے ہیں

وہ نخل جو بار ور ہوئے ہیں
آشوب خزاں سے ڈر رہے ہیں


شاخوں پہ تیر کے زخم ہیں یہ
یا پھر سے گلاب جھانکتے ہیں


ظلمت میں بہت ہی یاد آئے
وہ چاند جو ہم سفر رہے ہیں


لے دست ہوس یہ پھول تیرے
کانٹے تو وفا نے چن لئے ہیں


بدلا نہ نوشتۂ مقدور
مکتوب تو ہم نے بھی لکھے ہیں


پامال جہاں ہوئے کہ ہم نے
کچھ خواب جہاں کو بھی دیے ہیں


ٹوٹی ہے کہیں صدا کی زنجیر
حلقے سے خیال کے پڑے ہیں


صحرا کا سکوت کہہ رہا ہے
شہروں کے چراغ بجھ گئے ہیں


اے عشق جنوں شعار تیرے
دنیا میں عجیب سلسلے ہیں


چمکی ہے جو سرنوشت آدم
تہذیب کے نقش بن گئے ہیں


آفاق کی وسعتوں سے آگے
کچھ اور چراغ جل اٹھے ہیں


انساں کا شعور کہہ رہا ہے
انساں نے بہت سے دکھ سہے ہیں