تخلیق
نابود کے کامل سناٹے میں ذہن آفاقی شور خیالوں کا اپنے سنتا ہے اعماق کی تاریکی سے ابھر کر نور کا ایک اعظم ذرہ شق ہو کے عدم کے سناٹے کو توڑتا ہے پیٹھوں پہ ہوائے شمسی مارتی ہے درے۔۔۔ دوری حرکت میں آتے ہیں ساکت کرے افکار کا ورطہ بین النجم خلاؤں میں آواز مہیب سے گھومتا ہے سورج کے ...