Asif Raza

آصف رضا

امریکہ میں مقیم معروف پاکستانی شاعر، اپنی نظموں کے لیے جانے جاتے ہیں، متعدد شعری مجموعے شائع ہویے

Well-known Pakistani poet residing in America, known for his Nazms; published several collections of his poetry

آصف رضا کی نظم

    تخلیق

    نابود کے کامل سناٹے میں ذہن آفاقی شور خیالوں کا اپنے سنتا ہے اعماق کی تاریکی سے ابھر کر نور کا ایک اعظم ذرہ شق ہو کے عدم کے سناٹے کو توڑتا ہے پیٹھوں پہ ہوائے شمسی مارتی ہے درے۔۔۔ دوری حرکت میں آتے ہیں ساکت کرے افکار کا ورطہ بین النجم خلاؤں میں آواز مہیب سے گھومتا ہے سورج کے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کی رات

    زمیں کی رات کی ہے حکمرانی اسی کا ایلچی سورج ہے آؤ! بجھی جو روشنی دیتی ہیں وہ شمعیں جلاؤ اسی کے یہ خزاں دیدہ چمن ہیں دمکتے آنسوؤں کے بیچ بو کر زمین خواب سے اپنا کوئی گلشن اگاؤ اسی کے ہیں یہ چشمے تلخ سارے ازل کی تشنگی کو ساتھ لے کر سر صحرا کھڑے ہو کر سرابوں کو بلاؤ

    مزید پڑھیے

    جنگل

    نسا جال کا پھیلتا سلسلا مکانوں کی چیخیں جکڑ کر شکنجوں میں بنیاد کو توڑتی ہیں جنہیں ہراول جڑیں زمیں بوس ہوتی ہیں اونچی چھتیں سبز ماہی مراتب اٹھائے ہوئے بندروں کی صفیں آب زیریں کے خوں سے ہے جس کی نمو سبز ہوتا ہے اب پھر وہی سرخ رو

    مزید پڑھیے

    تلاش

    غسل طہارت کے لیے ڈوبا افق میں آفتاب افروختہ قندیل اپنی ہاتھ میں اپنے لیے راہبانہ رات پھرتی ہے فلک پر سوگوار جستجو سے شل ہیں اب چپو چلاتے ہاتھ ماہ و سال کے بے صبر، جھک کر ہاتھ سے اپنے فنا وسط سمندر میں اٹھاتی ہے بھنور ہوتی ہے مہلت ختم اب تو پردۂ اخفا اٹھا میرے مقدس خواب کی تعبیر ...

    مزید پڑھیے

    بارش

    بادل کی دھتکاری بارش روتی پھرتی ہے شانوں پہ دہکتے صحراؤں کا غم ڈھوتی پھرتی ہے وہ تیرہ پہنائی میں ساری رات بھٹکتی ہے رہ رہ کے اس کے سینے میں بجلی کی یاد تڑپتی ہے قہر سے اس کو کالے بادل گھورتے رہتے ہیں اس کے موتی جیسے آنسو پرنالوں میں بہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    ماں

    آوارہ گردی کرنا صبح و شام دھینگا مشتی، دشنام ہر روز یہی ہے کام نہ چین ہے نہ آرام بازار کی بھیڑ ہٹاتی اپنی کہنی سے بازو سے پکڑ کر جیسے اپنے بگڑے ضدی بچے کو فہمائش کرتی گھر واپس لے جاتی ہے ماں یوں ہی ہم کو بھی موت آ کر اس دنیا سے لے جاتی ہے بے چین ہماری روحوں کو دیتی ہے اماں شور و شر ...

    مزید پڑھیے

    شاید

    ''وہ جھک کے زمیں پر بغلوں میں دے کر ہاتھ ہماری ہم کو اٹھاتا ہے تاروں تک لاتا ہے پھر ہاتھ ہٹا کر ہم کو گرنے چھوڑتا ہے سرد و تاریک خلاؤں میں شاید اس کی یہ خواہش ہوتی ہے ہم اپنے دونوں بازو لہرائیں اور اوپر اٹھتے جائیں حتی کہ تنہائی کے ابد میں اس کے داخل ہوں اور ہاتھ بڑھا کر کانپتی ...

    مزید پڑھیے

    شجر

    میں نے جڑ سے اکھاڑنا چاہا اس شجر کو جسے محبت سے میں نے خوں دے کے اپنا پالا تھا میری آنکھوں کا جو اجالا تھا جب نہ اکھڑا تو میں نے اس کا تنا تیز آرے سے کاٹنا چاہا آہ لیکن بلند چیخ اس کی میرے کانوں نے دل خراش سنی اس سے چھوٹا لہو کا فوارہ میرے آنگن میں آج بھی ہے کھڑا وہ شجر اب زمیں میں اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2