شجر
میں نے جڑ سے اکھاڑنا چاہا
اس شجر کو جسے محبت سے
میں نے خوں دے کے اپنا پالا تھا
میری آنکھوں کا جو اجالا تھا
جب نہ اکھڑا تو میں نے اس کا تنا
تیز آرے سے کاٹنا چاہا
آہ لیکن بلند چیخ اس کی
میرے کانوں نے دل خراش سنی
اس سے چھوٹا لہو کا فوارہ
میرے آنگن میں آج بھی ہے کھڑا
وہ شجر
اب زمیں میں اس کی جڑیں
اور گہری ہیں
پھیر کے منہ اسے کراہت سے
روز میں اپنا خون دیتا ہوں
شاخ کے ہاتھ سے ثمر اس کا
تلخ
نفرت کے ساتھ لیتا ہوں