اشرف باقری کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    آپ نا آشنا ہو گئے

    آپ نا آشنا ہو گئے یعنی ہم سے خفا ہو گئے زندگی مرحلہ بن گئی حادثے سلسلہ ہو گئے اب شکایت نہیں ہے کوئی شکوے سب برملا ہو گئے آدمی آدمی کے لیے توبہ توبہ خدا ہو گئے درد حد سے کچھ اتنے بڑھے آپ اپنی دوا ہو گئے اتفاقا وہ مانوس ہوئے احتیاطاً خفا ہو گئے زندگی کشمکش ہی رہی درد جس کا صلہ ...

    مزید پڑھیے

    آپ کا اعتبار کرتا ہوں

    آپ کا اعتبار کرتا ہوں یہ خطا بار بار کرتا ہوں بے تعلق سا اک تعلق ہے جس تعلق کو پیار کرتا ہوں ہم ہیں اور جستجوئے منزل ہے مدتوں انتظار کرتا ہوں کارواں زندگی کا گزرا ہے انتظار غبار کرتا ہوں موت نا معتبر سی لگتی ہے عمر کا اعتبار کرتا ہوں بات جب ہے کہ شرم رہ جائے توبہ یوں تو ہزار ...

    مزید پڑھیے

    کیسے جلے ہیں بال و پر یہ تو شرر سے پوچھئے

    کیسے جلے ہیں بال و پر یہ تو شرر سے پوچھئے میرے جنوں کا واقعہ میرے جگر سے پوچھئے دل کو سکوں نہ مل سکا تیرے بغیر عمر بھر تیر نظر کی بات ہے ذوق نظر سے پوچھئے میرا تو دل نکال کر جیسے حیات رکھ گئی میں نے کیا تھا اس کا کیا اس کے ہی شر سے پوچھئے ہائے وہ اک مقام پر رہبر جہاں پہ رو دیا اہل ...

    مزید پڑھیے

    پشیمانیاں ہی پشیمانیاں ہیں

    پشیمانیاں ہی پشیمانیاں ہیں کسی مہرباں کی مہربانیاں ہیں میں ہوں اور میری یہ تنہائیاں ہیں بھری انجمن میں یہ ویرانیاں ہیں مقدر مرا جیسے دشواریاں ہوں مرے واسطے کتنی آسانیاں ہیں مرے حال پر ہنس رہا ہے زمانہ نہ جانے یہ کس کی مہربانیاں ہیں بھلا کر تجھے اے دل و جاں کے ...

    مزید پڑھیے

    ستاؤ نہ ہم کو ستائے ہوئے ہیں

    ستاؤ نہ ہم کو ستائے ہوئے ہیں چراغ سحر ہیں بجھائے ہوئے ہیں جو غم کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں وہ سینے میں شعلے چھپائے ہوئے ہیں سناؤ یہ مژدے غموں کے اے لوگو یہ نغمے سنے اور سنائے ہوئے ہیں گنوائے ہوئے ہیں وہ سب کچھ ہی اپنا جو شعلوں سے دامن جلائے ہوئے ہیں ہمیں آزمائے ہوئے ہے ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    کبھی کبھی

    کچھ یوں بدل گیا مرا طرز بیاں کبھی کبھی جیسے زبان ہوتی ہے خود بے زباں کبھی کبھی خود سے ہی ہو گیا ہوں میں بیزار ہاں کبھی کبھی گزری یہ زندگی مجھے اتنی گراں کبھی کبھی دے کر غم جہاں مجھے اشکوں پہ میرے بندشیں یوں بھی لیا ہے تو نے مرا امتحاں کبھی کبھی وہ شدت بیاں ہو کہ ہو جرأت بیان ...

    مزید پڑھیے

    کیف

    یہاں سجدہ وہاں سجدہ نہ کعبہ ہے نہ بت خانہ نہ جانے کر رہا ہے کیا کسی مستی میں مستانہ پلا دے مجھ کو ساقی تو یوں پیمانہ بہ پیمانہ نظر آئے تری دنیا مجھے بس ایک پیمانہ مجھے لگتا ہے اب ساغر بھی جیسے ایک مے خانہ نگاہ خاص ہے جب سے تری اے پیر مے خانہ عجب تو ہے عجب مے ہے عجب سا تیرا مے ...

    مزید پڑھیے

    حادثات

    زندگی حادثات لگتی ہے کتنی چھوٹی سی بات لگتی ہے تنگ سی کائنات لگتی ہے مختصر جب حیات لگتی ہے قید غم اور بندش ہستی قید میں گزری رات لگتی ہے حسرتوں کے ہجوم میں اکثر زندگی ممکنات لگتی ہے وہ بھی اکثر اداس ہوتے ہیں ہر خوشی جن کے ساتھ لگتی ہے اشک باری نہ پوچھئے ہم سے آنکھ ساون کی رات ...

    مزید پڑھیے

    کیفیت

    اے نگاہ مست اپنا سا ہی مستانہ بنا مے بنا دے روح کو اور جاں کو پیمانہ بنا کیف و مستی کا بنا دے جام دست شوق میں لوٹ لے جو میکدہ وہ پیر مے خانہ بنا فیض پر تیرے نگاہ فیض ہے یہ منحصر جس کو چاہے جیسے چاہے اپنا دیوانہ بنا خود سے بیگانہ بنا دے کیف و مستی چھین لے لو میں شمع عشق کی جل جاؤں ...

    مزید پڑھیے