حادثات
زندگی حادثات لگتی ہے
کتنی چھوٹی سی بات لگتی ہے
تنگ سی کائنات لگتی ہے
مختصر جب حیات لگتی ہے
قید غم اور بندش ہستی
قید میں گزری رات لگتی ہے
حسرتوں کے ہجوم میں اکثر
زندگی ممکنات لگتی ہے
وہ بھی اکثر اداس ہوتے ہیں
ہر خوشی جن کے ساتھ لگتی ہے
اشک باری نہ پوچھئے ہم سے
آنکھ ساون کی رات لگتی ہے
لوٹ لیتا ہے غم خوشی دل کی
مشکلوں سے جو ہاتھ لگتی ہے
مہرباں ہوں گے وہ کبھی مجھ پر
منہ سے نکلی سی بات لگتی ہے
زندگی اور زندگی کے غم
اک لٹی سی برات لگتی ہے
زندگی مختصر ہے تو کتنی
ایک بھولی سی بات لگتی ہے
نا مرادی سی نا مرادی ہے
زندگی کھائی مات لگتی ہے
زخم سینے میں چھوڑ جاتی ہے
جو ہنسی التفات لگتی ہے
موت کو مسکراتے دیکھا ہے
تھرتھرائی حیات لگتی ہے
کشمکش زندگی کی اے اشرفؔ
بے جا سا التفات لگتی ہے