آشا پربھات کی غزل

    ہر لمحہ چاند چاند نکھرنا پڑا مجھے

    ہر لمحہ چاند چاند نکھرنا پڑا مجھے ملنا تھا اس لئے بھی سنورنا پڑا مجھے آمد پہ اس کی پھول کی صورت تمام رات ایک اس کی رہ گزر پہ بکھرنا پڑا مجھے کیسی یہ زندگی نے لگائی عجیب شرط جینے کی آرزو لئے مرنا پڑا مجھے ویسے تو میری راہوں میں پڑتے تھے میکدے واعظ تری نگاہ سے ڈرنا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    دیر و حرم بھی آئے کئی اس سفر کے بیچ

    دیر و حرم بھی آئے کئی اس سفر کے بیچ میری جبین شوق ترے سنگ در کے بیچ کچھ لذت گناہ بھی ہے کچھ خدا کا خوف انسان جی رہا ہے اسی خیر و شر کے بیچ یہ خواہش وصال ہے یا ہجر کا سلوک چٹکی سی لی ہے درد نے آ کر جگر کے بیچ بچھڑے تو یہ ملال کی سوغات بھی ملی تاکید تھی خیال نہ آئے سفر کے بیچ خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    جانے اپنے سائے سے کیوں آج مجھے ڈر لگتا ہے

    جانے اپنے سائے سے کیوں آج مجھے ڈر لگتا ہے جلا ہوا اس شہر کا ہر گھر اپنا ہی گھر لگتا ہے کچھ اتنا چہرہ ٹوٹا ہے گھاؤ کچھ اتنے کھائے ہیں پھول بھی اس کے ہاتھوں کا اب مجھ کو پتھر لگتا ہے جس سے اس ننھے بچے کی ماں بہنوں کا قتل ہوا موسم گل کا ہر اک منظر خونی منظر لگتا ہے ویسے تو وہ میرا ...

    مزید پڑھیے

    ہر لمحہ چاند چاند نکھرنا پڑا مجھے

    ہر لمحہ چاند چاند نکھرنا پڑا مجھے ملنا تھا اس لئے بھی سنورنا پڑا مجھے آمد پہ اس کی پھول کی صورت تمام رات ایک اس کی رہ گزر پہ بکھرنا پڑا مجھے کیسی یہ زندگی نے لگائی عجیب شرط جینے کی آرزو لئے مرنا پڑا مجھے ایسے تو میری راہوں میں پڑے تھے میکدے واعظ تیری نگاہوں سے ڈرنا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    تجھے ہر گلی ہر نگر ڈھونڈتے ہیں

    تجھے ہر گلی ہر نگر ڈھونڈتے ہیں نہیں کچھ بھی حاصل مگر ڈھونڈتے ہیں بنا دے جو صحرا کو پھر سے گلستاں ہم ایسی نسیم سحر ڈھونڈتے ہیں لٹے آشیانوں کے آوارہ پنچھی نہ جانے کہاں اپنا گھر ڈھونڈتے ہیں ہر اک درد دل کو زباں دے سکے جو ہم اشکوں میں بس وہ اثر ڈھونڈتے ہیں نئے دور کا ہے مقدر ...

    مزید پڑھیے

    گزشتہ خواب کے منظر ستانے لگتے ہیں

    گزشتہ خواب کے منظر ستانے لگتے ہیں بھلائیں کیسے وہ آنکھوں میں آنے لگتے ہیں لرزتے کانپتے ہونٹوں پہ اس کے نام مرا یہ بات مجھ سے وہ اکثر چھپانے لگتے ہیں بھلاؤں کیسے میں بیتے دنوں کی یاد بھلا کتاب دل کے ورق پھڑپھڑانے لگتے ہیں بہار آنے کو آئی ہے گلستاں میں مگر یہ پھول پھول بدن دل ...

    مزید پڑھیے

    رات آئی تو تڑپنے کے بہانے آئے

    رات آئی تو تڑپنے کے بہانے آئے اشک آنکھوں میں تو ہونٹوں پہ ترانے آئے پھر تصور میں ہی ہم روٹھ کے بدلے پہلو پھر خیالوں میں ہی وہ ہم کو منانے آئے ان کے کوچے میں جو اک عمر گزاری ہم نے یہ کہانی بھی وہ غیروں کو سنانے آئے یہ بھی سچ ہے کہ ہر زخم ملا ہے ان سے اور وہی چپکے سے مرہم بھی لگانے ...

    مزید پڑھیے