جانے اپنے سائے سے کیوں آج مجھے ڈر لگتا ہے

جانے اپنے سائے سے کیوں آج مجھے ڈر لگتا ہے
جلا ہوا اس شہر کا ہر گھر اپنا ہی گھر لگتا ہے


کچھ اتنا چہرہ ٹوٹا ہے گھاؤ کچھ اتنے کھائے ہیں
پھول بھی اس کے ہاتھوں کا اب مجھ کو پتھر لگتا ہے


جس سے اس ننھے بچے کی ماں بہنوں کا قتل ہوا
موسم گل کا ہر اک منظر خونی منظر لگتا ہے


ویسے تو وہ میرا بھی محبوب دلارا ہے لیکن
اس کی ہر اک بات سے میرے دل میں خنجر لگتا ہے


ڈوبی ابھری ابھری ڈوبی ہر لمحہ ہر پل ہر روز
آشاؔ اس کی آنکھوں میں ایک گہرا سمندر لگتا ہے