گزشتہ خواب کے منظر ستانے لگتے ہیں
گزشتہ خواب کے منظر ستانے لگتے ہیں
بھلائیں کیسے وہ آنکھوں میں آنے لگتے ہیں
لرزتے کانپتے ہونٹوں پہ اس کے نام مرا
یہ بات مجھ سے وہ اکثر چھپانے لگتے ہیں
بھلاؤں کیسے میں بیتے دنوں کی یاد بھلا
کتاب دل کے ورق پھڑپھڑانے لگتے ہیں
بہار آنے کو آئی ہے گلستاں میں مگر
یہ پھول پھول بدن دل جلانے لگتے ہیں
خدا بچائے انہیں آفتوں کے جھٹکے سے
جو دیکھتے ہی مجھے مسکرانے لگتے ہیں