Asad Badayuni

اسعد بدایونی

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

Leading poet who taught Urdu literature at AMU, Aligarh, also published a literary magazine 'Daairay'

اسعد بدایونی کی غزل

    عجب دن تھے کہ ان آنکھوں میں کوئی خواب رہتا تھا

    عجب دن تھے کہ ان آنکھوں میں کوئی خواب رہتا تھا کبھی حاصل ہمیں خس خانہ و برفاب رہتا تھا ابھرنا ڈوبنا اب کشتیوں کا ہم کہاں دیکھیں وہ دریا کیا ہوا جس میں سدا گرداب رہتا تھا وہ سورج سو گیا ہے برف زاروں میں کہیں جا کر دھڑکتا رات دن جس سے دل بیتاب رہتا تھا جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے پاس بس اک تازیانہ ہوتا ہے

    ہوا کے پاس بس اک تازیانہ ہوتا ہے اسی سے شہر و شجر کو ڈرانا ہوتا ہے وہ ساری باتیں میں احباب ہی سے کہتا ہوں مجھے حریف کو جو کچھ سنانا ہوتا ہے منافقوں میں شب و روز بھی گزارتا ہوں اور ان کی زد سے بھی خود کو بچانا ہوتا ہے کتاب عمر بھری جا رہی ہے لیکن کیوں نہ کوئی لفظ نہ چہرہ پرانا ...

    مزید پڑھیے

    یہ لوگ خواب بہت کربلا کے دیکھتے ہیں

    یہ لوگ خواب بہت کربلا کے دیکھتے ہیں مگر غنیم کو گردن جھکا کے دیکھتے ہیں سنا ہے برف رتیں روشنی سے ڈرتی ہیں سو اک چراغ کو ہم بھی جلا کے دیکھتے ہیں انہیں کہو کہ کبھی جنگلوں کی سمت بھی آئیں جو بستیوں میں کرشمے خدا کے دیکھتے ہیں جنوں میں کوئی اضافہ نہیں ہے مدت سے غبار جسم بھی اب کے ...

    مزید پڑھیے

    تلاش رزق میں دیوان کرتا رہتا ہوں

    تلاش رزق میں دیوان کرتا رہتا ہوں ابھی سفر نہیں سامان کرتا رہتا ہوں خود اپنی راہ میں اکثر پہاڑ اگاتا ہوں خود اپنی مشکلیں آسان کرتا رہتا ہوں سجاتا رہتا ہوں کاغذ کے پھول شاخوں پر میں تتلیوں کو پریشان کرتا رہتا ہوں میں تخم اشک سے طوفاں اگانے کی ضد میں تمام شہر کو حیران کرتا رہتا ...

    مزید پڑھیے

    کھلے ہیں دشت میں نفرت کے پھول آہستہ آہستہ

    کھلے ہیں دشت میں نفرت کے پھول آہستہ آہستہ سروں تک آتی ہے قدموں کی دھول آہستہ آہستہ ابھی کچھ دن لگیں گے موسموں کا بھید پانے میں بدل جائیں گے یاروں کے اصول آہستہ آہستہ زیاں کا کوئی رشتہ عمر بھر قائم نہیں رہتا سو مٹ جاتا ہے ہر شوق فضول آہستہ آہستہ مجھے جرم ہنر مندی کا قائل ہونے ...

    مزید پڑھیے

    مرے لوگ خیمۂ صبر میں مرے شہر گرد ملال میں

    مرے لوگ خیمۂ صبر میں مرے شہر گرد ملال میں ابھی کتنا وقت ہے اے خدا ان اداسیوں کے زوال میں کبھی موج خواب میں کھو گیا کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا یوں ہی عمر ساری گزار دی فقط آرزوئے وصال میں کہیں گردشوں کے بھنور میں ہوں کسی چاک پر میں چڑھا ہوا کہیں میری خاک جمی ہوئی کسی دشت برف مثال ...

    مزید پڑھیے

    یہی نہیں کہ مرا گھر بدلتا جاتا ہے

    یہی نہیں کہ مرا گھر بدلتا جاتا ہے مزاج شہر بھی بدلتا جاتا ہے رتیں قدیم تواتر سے آتی جاتی ہیں درخت پتوں کے زیور بدلتا جاتا ہے افق پہ کیوں نہیں رکتی کوئی کرن پل بھر یہ کون تیزی سے منظر بدلتا جاتا ہے غبار وقت میں سب رنگ گھلتے جاتے ہیں زمانہ کتنے ہی تیور بدلتا جاتا ہے چھڑی ہوئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ

    میری نفرت بھی ہے شعروں میں مرے پیار کے ساتھ میں نے لکھی ہے غزل جرأت اظہار کے ساتھ اقتدار ایک طرف ایک طرف درویشی دونوں چیزیں نہیں رہ سکتی ہیں فن کار کے ساتھ اک خلا دل میں بہت دن سے مکیں ہے اب تو یاد گزرا ہوا موسم بھی نہیں یار کے ساتھ بادبانوں سے الجھتی ہے ہوا روز مگر کشتیاں سوئی ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کو آسماں لکھا گیا ہے

    زمیں کو آسماں لکھا گیا ہے یقینوں کو گماں لکھا گیا ہے جو کہنا تھا کبھی منہ سے نہ نکلا جو لکھنا تھا کہاں لکھا گیا ہے اداسی کا قصیدہ اس برس بھی سر دیوار جاں لکھا گیا ہے چراغوں کو ہواؤں کا پیمبر خموشی کو زباں لکھا گیا ہے مرے لفظوں سے اتنی برہمی کیوں بہت کچھ رائیگاں لکھا گیا ہے

    مزید پڑھیے

    سچ بول کے بچنے کی روایت نہیں کوئی

    سچ بول کے بچنے کی روایت نہیں کوئی اور مجھ کو شہادت کی ضرورت نہیں کوئی میں رزق کی آواز پہ لبیک کہوں گا ہاں مجھ کو زمینوں سے محبت نہیں کوئی میرے بھی کئی خواب تھے میرے بھی کئی عزم حالات سے انکار کی صورت نہیں کوئی میں جس کے لیے سارے زمانے سے خفا تھا اب یوں ہے کہ اس نام سے نسبت نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5