Asad Badayuni

اسعد بدایونی

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

Leading poet who taught Urdu literature at AMU, Aligarh, also published a literary magazine 'Daairay'

اسعد بدایونی کی غزل

    ترا وصال ہے بہتر کہ تیرا کھو جانا

    ترا وصال ہے بہتر کہ تیرا کھو جانا نہ جاگنا ہی میسر مجھے نہ سو جانا یہ سب فریب ہے میں کیا ہوں میری چاہت کیا جو ہو سکے تو مری طرح تو بھی ہو جانا ہنسی میں زخم چھپانے کا فن بھی زندہ ہے اسی خیال سے سیکھا نہ میں نے رو جانا اداس شہر میں زندہ دلی کی قیمت کیا بجا ہے میری ہنسی کا غبار ہو ...

    مزید پڑھیے

    خاک تو ہم بھی ہر اک دشت کی چھانے ہوئے ہیں

    خاک تو ہم بھی ہر اک دشت کی چھانے ہوئے ہیں کچھ نیا کرنے کی کوشش میں پرانے ہوئے ہیں سبز موسم کا پتہ جن سے ملا کرتا تھا تیرہ بختوں کے وہی شہر ٹھکانے ہوئے ہیں خانۂ دل میں ابھی تک ہیں وہی لوگ آباد جن کو اوجھل ہوئے آنکھوں سے زمانے ہوئے ہیں تیر شاخوں میں ہیں پیوست پرندوں میں نہیں کس ...

    مزید پڑھیے

    خوشی بھی اب سراپا غم لگے ہے

    خوشی بھی اب سراپا غم لگے ہے توجہ آپ کی کچھ کم لگے ہے کوئی ہم دم نہیں دنیا میں لیکن جسے دیکھو وہی ہم دم لگے ہے میں ہوں مجبور اپنے دل سے مجھ کو پرایا غم بھی اپنا غم لگے ہے بہاریں ہیں چمن میں گل بداماں خزاں کا سا مگر موسم لگے ہے جدھر دیکھو ادھر شبنم کے آنسو چمن کیا ہے صف ماتم لگے ...

    مزید پڑھیے

    نہ احتجاج نہ آوارگی میں دیکھ مجھے

    نہ احتجاج نہ آوارگی میں دیکھ مجھے جو ہو سکے تو مری روشنی میں دیکھ مجھے گل ہوس بھی ہے شاخ وصال کا حصہ چراغ لالہ کی تازہ کلی میں دیکھ مجھے وضاحتوں سے تو کچھ بھی سمجھ نہ پائے گا کبھی غبار کبھی تیرگی میں دیکھ مجھے فضائے یاد میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں جدید شخص پرانی گلی میں دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    روشنی میں کس قدر دیوار و در اچھے لگے

    روشنی میں کس قدر دیوار و در اچھے لگے شہر کے سارے مکاں سارے کھنڈر اچھے لگے پہلے پہلے میں بھی تھا امن و اماں کا معترف اور پھر ایسا ہوا نیزوں پہ سر اچھے لگے جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے دائرہ در دائرہ پانی کا رقص جاوداں آنکھ کی پتلی کو ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے

    کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے اب ہم وصال یار سے بے زار ہیں بہت دل کا جھکاؤ ہجر کی جانب بلا کا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    دیار عشق کی شمعیں جلا تو سکتے ہیں

    دیار عشق کی شمعیں جلا تو سکتے ہیں خوشی ملے نہ ملے مسکرا تو سکتے ہیں ہمیشہ وصل میسر ہو یہ ضروری نہیں دو ایک دن کو ترے پاس آ تو سکتے ہیں جو راز عشق ہے ان کو چھپائیں گے لیکن جو داغ عشق ہیں سب کو دکھا تو سکتے ہیں ہم امتحان میں ناکام ہوں یہ رنج نہیں اسی میں خوش ہیں کہ وہ آزما تو سکتے ...

    مزید پڑھیے

    وقت اک دریا ہے دریا سب بہا لے جائے گا

    وقت اک دریا ہے دریا سب بہا لے جائے گا ہم مگر تنکے ہیں ہم تنکوں سے کیا لے جائے گا اک عجب آشوب ہے کیوں بستیوں میں جلوہ گر کیا یہ ہر انسان سے خوف خدا لے جائے گا ہے تو خورشید حقیقت پر بڑا بے مہر ہے دل سے جذبے آنکھ سے آنسو چرا لے جائے گا بوریے پر بیٹھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے شہریار عصر ...

    مزید پڑھیے

    دل وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرنا ہے

    دل وحشی تجھے اک بار پھر زنجیر کرنا ہے کہ اب اس سے ملاقاتوں میں کچھ تاخیر کرنا ہے مرے پچھلے بہانے اس پہ روشن ہوتے جاتے ہیں سو اب مجھ کو نیا حیلہ نئی تدبیر کرنا ہے کماں داروں کو اس سے کیا غرض پہنچے کہ رہ جائے انہیں تو بس اشارے پر روانہ تیر کرنا ہے ابھی امکان کے صفحے بہت خالی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کس نے کوئی سچ لکھا ہے یہ فقط الزام ہے

    کس نے کوئی سچ لکھا ہے یہ فقط الزام ہے شاعری محرومیوں کا خوب صورت نام ہے بے غرض ملنے کی ساری منطقیں جھوٹی ہیں یار تو جو آیا ہے تو اب بتلا بھی دے کیا کام ہے اب کے میخانے کی مٹی پر کوئی دھبہ نہیں رند ہیں ٹوٹے ہوئے ہاتھوں میں ثابت جام ہے نے شکوۂ سروری ہے نے جمال دلبری دل کسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5