تلاش رزق میں دیوان کرتا رہتا ہوں

تلاش رزق میں دیوان کرتا رہتا ہوں
ابھی سفر نہیں سامان کرتا رہتا ہوں


خود اپنی راہ میں اکثر پہاڑ اگاتا ہوں
خود اپنی مشکلیں آسان کرتا رہتا ہوں


سجاتا رہتا ہوں کاغذ کے پھول شاخوں پر
میں تتلیوں کو پریشان کرتا رہتا ہوں


میں تخم اشک سے طوفاں اگانے کی ضد میں
تمام شہر کو حیران کرتا رہتا ہوں


مرے مکاں میں دھواں بھی گھٹن بھی ہے لیکن
میں خوشبوؤں کو بھی مہمان کرتا رہتا ہوں