Asad Badayuni

اسعد بدایونی

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

Leading poet who taught Urdu literature at AMU, Aligarh, also published a literary magazine 'Daairay'

اسعد بدایونی کی غزل

    یہ دھوپ چھاؤں کے اسرار کیا بتاتے ہیں

    یہ دھوپ چھاؤں کے اسرار کیا بتاتے ہیں جو آنکھ ہو تو اسی کا پتہ بتاتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو سارے کم عیاروں کو کبھی چراغ کبھی آئینہ بتاتے ہیں کبھی وہ شخص اک ادنیٰ غلام تھا میرا رفیق اب جسے اپنا خدا بتاتے ہیں بہت سے لوگوں کو میں بھی غلط سمجھتا ہوں بہت سے لوگ مجھے بھی برا بتاتے ...

    مزید پڑھیے

    پوشیدہ کیوں ہے طور پہ جلوہ دکھا کے دیکھ

    پوشیدہ کیوں ہے طور پہ جلوہ دکھا کے دیکھ اے دوست میری تاب نظر آزما کے دیکھ پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ لیتا نہیں کسی کا پس مرگ کوئی نام دنیا کو دیکھنا ہے تو دنیا سے جا کے دیکھ دل میں ہمارے درد زمانے کا ہے نہاں پیوست دل میں ...

    مزید پڑھیے

    نظر اٹھا کے جو دیکھا ادھر کوئی بھی نہ تھا

    نظر اٹھا کے جو دیکھا ادھر کوئی بھی نہ تھا سلگتی دھوپ کی سرحد پہ گھر کوئی بھی نہ تھا ہر ایک جسم تھا اک پوسٹر شعاعوں کا سلگتے دشت میں ٹھنڈا شجر کوئی بھی نہ تھا چمکتے دن میں تو سب لوگ ساتھ تھے لیکن اداس شب میں مرا ہم سفر کوئی بھی نہ تھا ہر ایک شہر میں تھا اضطراب کا آسیب جہاں سکون ہو ...

    مزید پڑھیے

    پتھر پانی ہو جاتے ہیں

    پتھر پانی ہو جاتے ہیں لوگ کہانی ہو جاتے ہیں نئے نئے چہرے والے بھی بات پرانی ہو جاتے ہیں عشق کی رت میں سارے بھکاری راجا رانی ہو جاتے ہیں شام سمے لو کے جھونکے بھی پون سہانی ہو جاتے ہیں سکھ کا موسم جب آتا ہے جسم بھی پانی ہو جاتے ہیں سوکھے پتے گئی رتوں کے نئی نشانی ہو جاتے ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا

    گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا ہم سے اے حسن ادا کب ترا حق ہو پایا آنکھ بھر تجھ کو بزرگوں کے نہ ڈر سے دیکھا اپنی بانہوں کی طرح مجھ کو لگیں سب شاخیں چاند الجھا ہوا جس رات شجر سے دیکھا ہم کسی جنگ میں شامل نہ ہوئے بس ہم نے ہر تماشے کو فقط راہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے بھی وحشت صحرا پکار میں بھی ہوں

    مجھے بھی وحشت صحرا پکار میں بھی ہوں ترے وصال کا امیدوار میں بھی ہوں پرند کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں کہ اک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں مجھے بھی حکم ملے جان سے گزرنے کا میں انتظار میں ہوں شہسوار میں بھی ہوں بہت سے نیزے یہاں خود مری تلاش میں ہیں یہ دشت جس میں برائے شکار ...

    مزید پڑھیے

    پوچھو اگر تو کرتے ہیں انکار سب کے سب

    پوچھو اگر تو کرتے ہیں انکار سب کے سب سچ یہ کہ ہیں حیات سے بیزار سب کے سب اپنی خبر کسی کو نہیں پھر بھی جانے کیوں پڑھتے ہیں روز شہر میں اخبار سب کے سب تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب سوچو تو نفرتوں کا ذخیرہ ہے ایک دل کرتے ہیں یوں تو پیار کا اظہار ...

    مزید پڑھیے

    راستہ کوئی سفر کوئی مسافت کوئی

    راستہ کوئی سفر کوئی مسافت کوئی پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی مرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی میں نے دنیا کو سدا دل کے برابر سمجھا کام آئی نہ بزرگوں کی نصیحت ...

    مزید پڑھیے

    نئی زمین نیا آسماں تلاش کرو

    نئی زمین نیا آسماں تلاش کرو جو سطح آب پہ ہو وہ مکاں تلاش کرو نگر میں دھوپ کی تیزی جلائے دیتی ہے نگر سے دور کوئی سائباں تلاش کرو ٹھٹھر گیا ہے بدن سب کا برف باری سے دہکتا کھولتا آتش فشاں تلاش کرو ہر ایک لفظ کے معنی بہت ہی اتھلے ہیں اک ایسا لفظ جو ہو بے کراں تلاش کرو بہت دنوں سے ...

    مزید پڑھیے

    وہ آدمی جو تری آرزو میں مرتا ہے

    وہ آدمی جو تری آرزو میں مرتا ہے وہ تجھ سے پیار نہیں خود سے عشق کرتا ہے فضا میں خوف کے پرچم بلند ہوتے ہیں سواد شام سے لشکر کوئی گزرتا ہے مری زمیں کے بلاوے غضب کے ہیں لیکن کوئی جنوں مرے پر رات دن کترتا ہے میں اپنے آپ کو اب کس کے چاک پر رکھوں شکستہ ظرف دوبارہ کہیں سنورتا ہے لگے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5