Asad Badayuni

اسعد بدایونی

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

Leading poet who taught Urdu literature at AMU, Aligarh, also published a literary magazine 'Daairay'

اسعد بدایونی کی نظم

    ایک نظم

    کون سوچے کہ سورج کے ہاتھوں میں کیا ہے ہواؤں کی تحریر پڑھنے کی فرصت کسی کو نہیں کون ڈھونڈے فضاؤں میں تحلیل رستہ کون گزرے سوچ کے ساحلوں سے خواہشوں کی سلگتی ہوئی ریت کو کون ہاتھوں میں لے کون اترے سمندر کی گہرائیوں میں چاندنی کی جواں انگلیوں میں انگلیاں کون ڈالے کون سمجھے مرے فلسفے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو شام زر نگار ہے

    ایک اداس چاند سے لگاؤ کے دنوں کی یادگار ہے میں منظروں سے سرسری گزرنے والا شخص تھا یوں ہی سی ایک شام تھی اور ایک جھیل تھی کہ جس میں اس کا عکس تھا سو میں وہیں ٹھہر گیا وہ چاند میرے سارے جسم میں اتر گیا یہ ایک ہجر جو ازل سے میرے اس کے درمیان تھا مگر عجب جنون تھا جو چاہتا تھا دوریوں کو ...

    مزید پڑھیے

    جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے

    ستارے جتنے بھی آسماں پر مری تمنا کے ضوفشاں تھے زمیں کے اندر اتر گئے ہیں جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے وہ مر گئے ہیں وہ پھول وہ تتلیاں کہ جن سے بہار کی دل کشی سوا تھی وہ رزق خاشاک بن چکے تھے تمام منظر تمام چہرے جو دھیرے دھیرے سلگ رہے تھے سو اب وہ سب راکھ بن چکے ہیں میں رفتگاں کی اداس ...

    مزید پڑھیے

    ہم اہل خوف

    یہی تھکن کہ جو ان بستیوں پہ چھائی ہے اتر نہ جائے پرندوں کے شہپروں میں بھی یہ ٹوٹے پھوٹے مکانات اونگھتے چھپر چراغ شام کی دھندلی سی روشنی کے امیں نہ ان کا یار کوئی ہے نہ کوئی نکتہ چیں نہ جانے کب کوئی دست ستم ادھر آ جائے اور اس ذرا سی بچی روشنی کو کھا جائے یہ کھلکھلاتے ہوئے ہنستے ...

    مزید پڑھیے

    تلخیاں

    چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں میں شہر کے مضطرب دل کی تسلی کے لیے آنے والے کل کے منصوبوں میں گم چند انساں چائے سپ کرتے ہوئے پی رہے ہیں سارے دن کی تلخیاں

    مزید پڑھیے

    بارش کی نظم

    یہ منحوس بارش جواں سال گیہوں کے دانوں کو کیچڑ کا حصہ بنانے مرے گاؤں میں ہر برس کی طرح آج پھر آ گئی ہے وہ گیہوں کے خوشے جو کھلیان میں دھوپ کے دیوتا کی عبادت میں مصروف تھے ان کو بارش نے آغوش میں لے لیا ہے ہر اک کھیت میں کتنا پانی بھرا ہے بھوک اپنی مٹا کر یہ بارش چلی جائے گی اور سب کھیت ...

    مزید پڑھیے