Asad Badayuni

اسعد بدایونی

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

Leading poet who taught Urdu literature at AMU, Aligarh, also published a literary magazine 'Daairay'

اسعد بدایونی کی غزل

    جس کو ہونا ہے وہ ان آنکھوں سے اوجھل ہو جائے

    جس کو ہونا ہے وہ ان آنکھوں سے اوجھل ہو جائے اس سے پہلے کہ مرا کام مکمل ہو جائے میں تو بس دیکھتا رہتا ہوں زمینوں کے کٹاؤ آدمی سوچنے والا ہو تو پاگل ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو ویرانے ہوں پھر سے آباد کہیں ایسا نہ ہو ہر شہر ہی جنگل ہو جائے یہ زمیں جس پہ ہے گلزاروں کی تعداد بہت یہ بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    سخن وری کا بہانہ بناتا رہتا ہوں

    سخن وری کا بہانہ بناتا رہتا ہوں ترا فسانہ تجھی کو سناتا رہتا ہوں میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں نہ دنیا سے جو دل میں آتا ہے ہونٹوں پہ لاتا رہتا ہوں پرانے گھر کی شکستہ چھتوں سے اکتا کر نئے مکان کا نقشہ بناتا رہتا ہوں مرے وجود میں آباد ہیں کئی جنگل جہاں میں ہو کی صدائیں لگاتا رہتا ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے

    بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے میں منظروں کے گھنے پن سے خوف کھاتا ہوں فنا کو دست محبت یہاں بھی دھرنا ہے تلاش رزق میں دریا کے پنچھیوں کی طرح تمام عمر مجھے ڈوبنا ابھرنا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں نے بہت دن سے قیامت نہیں دیکھی

    آنکھوں نے بہت دن سے قیامت نہیں دیکھی مدت ہوئی اچھی کوئی صورت نہیں دیکھی چہروں کی طرح کس لیے مرجھائے ہوئے ہیں پھولوں نے تو ہم جیسی مصیبت نہیں دیکھی وہ شہر سے گزرا تھا فقط یاد ہے اتنا پھر کوئی بھی دستار سلامت نہیں دیکھی لوٹے جو مسافت سے تو میں اس سے یہ پوچھوں بستی تو کوئی راہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک نام جو دریا بھی ہے کنارا بھی

    وہ ایک نام جو دریا بھی ہے کنارا بھی رہا ہے اس سے بہت رابطہ ہمارا بھی چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی ہمیں بھی لمحۂ رخصت سے ہول آتا ہے جدا ہوا ہے کوئی مہرباں ہمارا بھی علامت شجر سایہ دار بھی وہ جسم خرابی دل و دیدہ کا استعارہ بھی افق تھکن کی ...

    مزید پڑھیے

    دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے

    دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے مگر جنگوں کی تیاری بہت ہے خرد کی بستیوں کے پھونکنے کو جنوں کی ایک چنگاری بہت ہے سبھی زد میں ہیں دشت و کوہ و انساں یہ ضرب وقت ہے کاری بہت ہے پرانا خشک پتا کہہ رہا تھا ہوا میں تیز رفتاری بہت ہے ہم اپنے دل کی دنیا دیکھتے ہیں ہمیں یہ شغل بیکاری بہت ...

    مزید پڑھیے

    مری انا مرے دشمن کو تازیانہ ہے

    مری انا مرے دشمن کو تازیانہ ہے اسی چراغ سے روشن غریب خانہ ہے میں اک طرف ہوں کسی کنج کم نمائی میں اور ایک سمت جہانداری زمانہ ہے یہ طائروں کی قطاریں کدھر کو جاتی ہیں نہ کوئی دام بچھا ہے کہیں نہ دانہ ہے ابھی نہیں ہے مجھے مصلحت کی دھوپ کا خوف ابھی تو سر پہ بغاوت کا شامیانہ ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    یہ زندہ رہنے کا موسم گزر نہ جائے کہیں

    یہ زندہ رہنے کا موسم گزر نہ جائے کہیں اب آ بھی جاؤ دل زار مر نہ جائے کہیں مرا ستارا تو اب تک نظر نہیں آیا میں ڈر رہا ہوں کہ یہ شب گزر نہ جائے کہیں ندی کنارے کھڑا پیڑ سوچ میں گم ہے کوئی بھنور اسے برباد کر نہ جائے کہیں پرندے اپنے ٹھکانوں کو خیر سے پہنچے دعا یہی ہے کہ کوئی ٹھہر نہ ...

    مزید پڑھیے

    داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی

    داستاں وصل کی اک بات سے آگے نہ بڑھی آپ کی شکوہ شکایت سے آگے نہ بڑھی لاکھ روتی رہی جلتی رہی افسوس مگر زندگی شمع کی اک رات سے آگے نہ بڑھی تو جفا کیش رہا اور میں وفا کوش رہا بات تیری بھی مری بات سے آگے نہ بڑھی یوں تو آغاز محبت میں بڑے دعوے تھے دوستی پہلی ملاقات سے آگے نہ بڑھی مل ...

    مزید پڑھیے

    سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں

    سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں نہ جانے کس لیے خوشیوں سے بھر چکے ہیں دل مکان اب یہ عزا خانے ہونا چاہتے ہیں وہ بستیاں کہ جہاں پھول ہیں دریچوں میں اسی نواح میں ویرانے ہونا چاہتے ہیں تکلفات کی نظموں کا سلسلہ ہے سوا تعلقات اب افسانے ہونا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5