Arshad Kamal

ارشد کمال

ارشد کمال کی نظم

    ذمہ داری

    حصار تشکیک توڑ کر تم اٹھو زمیں سے فلک پہ پہنچو پھر اس جہاں پر نگاہ ڈالو خدا را اپنا مقام سمجھو شعور مخصوص جو ودیعت ہوا ہے تم کو ذرا تم اس سے جو کام لے لو تو شور شب خوں جو ہر طرف ہے یہ خود بہ خود ہی خموش ہوگا یہ العطش کی صدا جو ہر سمت اٹھ رہی ہے تم اس پہ لبیک کہہ کر اپنی فرات کا در خدا ...

    مزید پڑھیے

    مگر کیا کیجیے

    تکمیل کی منزل تو کوسوں دور ہے اب بھی کہ اس کے ماسوا کچھ اور بھی موجود ہے دل میں

    مزید پڑھیے

    نوائے وقت

    پتنگ اڑانے میں گھر سے نکلا تو اک ضعیف آدمی نے ناراضگی کے لہجے میں مجھ کو ٹوکا کہ اس فضا میں نہ اڑ سکے گی پتنگ تیری ہر ایک جانب سیاہ بادل ہیں آسماں پر نہ جانے کب ایک تیز بارش کی زد میں آ کر پتنگ تیری جو بھیگ جائے تو ہو کے بے جان جسم اس کا زمیں پہ ٹپکے ذرا توقف کے بعد اس نے یہ رائے بھی ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    چار دن کی چاندنی کے سلسلے میں مرا نوحہ سنتے سنتے چاند نے کل ڈوبنے سے قبل مجھ سے یہ کہا چشم تر کے جگنوؤں سے جو کرن بھی پھوٹ نکلے بس اسے ہی عصر نو کی تیرگی میں گھولنے کی ڈھونڈتے رہنا سبیل

    مزید پڑھیے

    سعیٔ رائیگاں

    نڈھال ہو کر اداس لہجے میں چاند سورج یہ کہہ رہے تھے نہ جانے کب سے ہم اس جہاں میں اجالے برسا رہے ہیں لیکن فصیل ظلمت ہنوز قائم ہے اس زمیں پر پھر اس نتیجے پہ دونوں پہنچے کہ ذہن انساں کے طاق پر جب تلک نہ ہوگا چراغ روشن ہماری کوشش کا ماحصل تو صفر ہی ہوگا

    مزید پڑھیے

    نفی و اثبات

    اس کا اقرار کر کے اسے ڈھونڈنے چل پڑا شہر میں دشت میں کوہ و دریا میں، میں مدتوں مارا مارا پھرا لیکن اس کا نشاں میری نظروں سے اوجھل تھا اوجھل رہا آخرش تھک کے جب سو گیا میں کسی موڑ پر تو مرے پردۂ خواب پر ایک تحریر مجھ سے مخاطب ہوئی اس طرح تیرا اقرار بالکل بجا ہے مگر یاد رکھ ایک انکار ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ چھانو کے درمیاں

    یہ زندگی گلوں کی ایک سیج ہے نہ خار و خس کا ڈھیر ہے بس ایک امتحان کا لطیف سا سوال ہے سوال کا جواب تو محال ہے بس اتنا ہی سمجھ لیں ہم کہ زیست دھوپ چھانو ہے کہیں پہ یہ نشیب تو کہیں پہ یہ فراز ہے جہاں بٹھائے یہ ہمیں وہیں پہ ہم بساط ذات ڈال کر کرن کرن سے کچھ نہ کچھ حرارتیں نچوڑ لیں تمازتیں ...

    مزید پڑھیے

    خدشہ

    گپھاؤں جنگلوں سے دور ہم تہذیب کی دھن پر تمدن کی ردا اوڑھے سفر کرتے رہے ہیں ایک مدت سے مگر یہ اک حقیقت ہے کہ اس لمبے سفر کی ایک ساعت بھی ہمارے حق میں کچھ اچھی نہیں نکلی دریدہ ہو چکی اس درمیاں چادر تمدن کی گراں بار سماعت ہو گئی تہذیب کی ہر دھن اب ایسے میں زمیں کی شکل کو مد نظر ...

    مزید پڑھیے

    ماسوا

    اسے محسوس کرتا ہوں نسیم صبح کے جھونکوں میں سر سر کے تھپیڑوں میں اماوس کے اندھیروں میں مہ کامل کے شب افروز اجالوں میں اسے محسوس کرتا ہوں پپیہے کی پکاروں میں تھرکتے مور کی دل کش اداؤں میں کسی بے چین بلبل کے ترنم میں کبھی نوخیز کلیوں کے تبسم میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اسے محسوس ...

    مزید پڑھیے