Arshad Kamal

ارشد کمال

ارشد کمال کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے

    کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے مرا دل میرے پہلو میں پرایا ہو گیا ہے وہ آئے تو لگا غم کا مداوا ہو گیا ہے مگر یہ کیا کہ غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہے سواد شب ترے صدقے کچھ ایسا ہو گیا ہے بھنور بھی دیکھنے میں اب کنارا ہو گیا ہے میں ان کی گفتگو سے عالم سکتہ میں گم تھا وہ سمجھے ان ...

    مزید پڑھیے

    کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے

    کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے مرے اندر پرانا اک شناور جاگ اٹھتا ہے نشیمن گیر ہیں طائر بھلا سمجھیں تو کیا سمجھیں وہ کیفیت کہ جب شاہیں کا شہپر جاگ اٹھتا ہے میں جب بھی کھینچتا ہوں ایک نقشہ روز روشن کا نہ جانے کیسے اس میں شب کا منظر جاگ اٹھتا ہے زمانہ گامزن ہے پھر انہی ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح

    ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح کسی کا دھیان ہے ایسے میں بادباں کی طرح نسیم صبح یہ کہتی ہے کتنی حسرت سے کوئی تو باغ میں مل جائے باغباں کی طرح ہے وہ تپش ترے پلکوں کے شامیانے میں کہ اب تو دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح ہر ایک موڑ پہ ملتے ہیں ہم خیال مگر کہیں تو کوئی ملے مجھ کو ہم ...

    مزید پڑھیے

    ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

    ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے ساحل سے سمندر کا نظارہ نہیں کرتے ہر شعبۂ ہستی ہے طلب گار توازن ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے دستک سے علاقہ رہا کب شیش محل کو خوابیدہ سماعت کو پکارا نہیں کرتے ہم فرط ...

    مزید پڑھیے

    فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے

    فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے ایک بجھتی سی انگیٹھی کو ہوا دی جائے کسی جنگل میں اگر ہو تو بجھا دی جائے کیسے تن من میں لگی آگ دبا دی جائے تلخی زیست کی شدت کا تقاضہ ہے یہی ذہن و دل میں جو مسافت ہے گھٹا دی جائے تیرگی شب کی بسی جائے ہے ہستی میں مری صبح کو جا کے یہ روداد سنا دی ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    ذمہ داری

    حصار تشکیک توڑ کر تم اٹھو زمیں سے فلک پہ پہنچو پھر اس جہاں پر نگاہ ڈالو خدا را اپنا مقام سمجھو شعور مخصوص جو ودیعت ہوا ہے تم کو ذرا تم اس سے جو کام لے لو تو شور شب خوں جو ہر طرف ہے یہ خود بہ خود ہی خموش ہوگا یہ العطش کی صدا جو ہر سمت اٹھ رہی ہے تم اس پہ لبیک کہہ کر اپنی فرات کا در خدا ...

    مزید پڑھیے

    مگر کیا کیجیے

    تکمیل کی منزل تو کوسوں دور ہے اب بھی کہ اس کے ماسوا کچھ اور بھی موجود ہے دل میں

    مزید پڑھیے

    نوائے وقت

    پتنگ اڑانے میں گھر سے نکلا تو اک ضعیف آدمی نے ناراضگی کے لہجے میں مجھ کو ٹوکا کہ اس فضا میں نہ اڑ سکے گی پتنگ تیری ہر ایک جانب سیاہ بادل ہیں آسماں پر نہ جانے کب ایک تیز بارش کی زد میں آ کر پتنگ تیری جو بھیگ جائے تو ہو کے بے جان جسم اس کا زمیں پہ ٹپکے ذرا توقف کے بعد اس نے یہ رائے بھی ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    چار دن کی چاندنی کے سلسلے میں مرا نوحہ سنتے سنتے چاند نے کل ڈوبنے سے قبل مجھ سے یہ کہا چشم تر کے جگنوؤں سے جو کرن بھی پھوٹ نکلے بس اسے ہی عصر نو کی تیرگی میں گھولنے کی ڈھونڈتے رہنا سبیل

    مزید پڑھیے

    سعیٔ رائیگاں

    نڈھال ہو کر اداس لہجے میں چاند سورج یہ کہہ رہے تھے نہ جانے کب سے ہم اس جہاں میں اجالے برسا رہے ہیں لیکن فصیل ظلمت ہنوز قائم ہے اس زمیں پر پھر اس نتیجے پہ دونوں پہنچے کہ ذہن انساں کے طاق پر جب تلک نہ ہوگا چراغ روشن ہماری کوشش کا ماحصل تو صفر ہی ہوگا

    مزید پڑھیے

تمام