وحشی عشق جنوں کم بھی نہیں کرتا ہے
وحشی عشق جنوں کم بھی نہیں کرتا ہے
اور یوں بھی ہے کہ اب رم بھی نہیں کرتا ہے
توڑ بھی لیتا ہے وہ ربط عنایت ہم سے
رشتۂ درد کو محکم بھی نہیں کرتا ہے
اس کا شکوہ نہیں کر سکتے کہ وہ دل کے تئیں
خوش نہیں کرتا تو برہم بھی نہیں کرتا ہے
مجھے دیوار انا سے وہ گراتا بھی نہیں
اور اونچا مرا پرچم بھی نہیں کرتا ہے
تبر و تیغ ہماری بھی دھری ہے کب سے
چھیڑ مدت ہوئی عالم بھی نہیں کرتا ہے