رکتے ہوئے قدموں کا چلن میرے لیے ہے
رکتے ہوئے قدموں کا چلن میرے لیے ہے
سیارۂ حیرت کی تھکن میرے لیے ہے
کوئی مرا آہو مجھے لا کر نہیں دیتا
کہتے تو سبھی ہیں کہ ختن میرے لیے ہے
تپ سی مجھے آ جاتی ہے آغوش میں اس کی
وہ برف کے گالے سا بدن میرے لیے ہے
ہیں جوئے تب و تاب پہ انوار کے پیاسے
اور شام کا یہ سانولا پن میرے لیے ہے
قندھار نہ کابل نہ یمن میرے لیے ہے
مٹی کے اجڑنے کی چبھن میرے لیے ہے
باروت میں بھنتے ہوئے الفاظ و مفاہیم
اب تو یہی تصویر سخن میرے لیے ہے
دنیا ہی نہیں خود سے خفا رہتا ہوں ارشدؔ
جینے کا یہ انداز ہی فن میرے لیے ہے