نفاذ نظم پر اصرار ہے ایسا نہیں لگتا

نفاذ نظم پر اصرار ہے ایسا نہیں لگتا
گلستاں میں کوئی سرکار ہے ایسا نہیں لگتا


یہاں ہر جیب میں خوابوں کی زر مہریں کھنکتی ہیں
یہ دنیا درد کا بازار ہے ایسا نہیں لگتا


ہم اپنی جھونک میں آگے کی جانب بڑھتے جاتے ہیں
ہمارے سامنے دیوار ہے ایسا نہیں لگتا


سر پندار سے پائے جنوں کا ربط غائب ہے
یہ پیڑھی برسر پیکار ہے ایسا نہیں لگتا


میں جیسے ایک راہ سست رو کی سیر کرتا ہوں
مری رانوں تلے رہوار ہے ایسا نہیں لگتا


امڈ کے آیا تو ہے ابر گریہ مطلع جاں سے
مگر یہ صاعقہ بردار ہے ایسا نہیں لگتا


بہ یک جست تصور بزم جاناں میں پہنچتا ہے
یہ ارشدؔ ہجر کا بیمار ہے ایسا نہیں لگتا