Arman Akbarabadi

ارمان اکبرآبادی

ارمان اکبرآبادی کی غزل

    زہے زندہ دلی غم کی گل افشانی نہیں جاتی

    زہے زندہ دلی غم کی گل افشانی نہیں جاتی کچھ ایسے اشک بھی ہیں جن کی تابانی نہیں جاتی تلاطم خیز موجوں کا تلاطم تھم گیا لیکن جو برپا ہے کناروں پر وہ طغیانی نہیں جاتی مرے رہبر مجھے یہ کونسی منزل پہ لے آئے کہ مجھ سے صورت منزل بھی پہچانی نہیں جاتی ہزاروں آشیانے پھونک ڈالے صحن گلشن ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری بزم میں جانے یہ کیسا عالم ہے

    تمہاری بزم میں جانے یہ کیسا عالم ہے چراغ جتنے زیادہ ہیں روشنی کم ہے روش روش پہ ہیں خوں ریزیوں کے ہنگامے قدم قدم پہ یہاں زندگی کا ماتم ہے چمن میں پھول کھلے ہیں مگر اداس اداس بہار آئی ہے لیکن خزاں کا عالم ہے وہ آنکھ آنکھ نہیں جس میں سیل اشک نہ ہو وہ پھول خار ہے جو بے نیاز شبنم ...

    مزید پڑھیے

    مرا دل بھی مرا اب دل کہاں ہے

    مرا دل بھی مرا اب دل کہاں ہے خدا جانے مری منزل کہاں ہے تلاطم ہی تلاطم ہیں نظر میں مری کشتی مرا ساحل کہاں ہے بظاہر ٹوٹ کر ملتا ہے لیکن وہ پہلا سا خلوص دل کہاں ہے تمازت خیز ہے راہ مسائل بتاؤ رہبرو منزل کہاں ہے نئے موسم نئی رنگینیاں ہیں مگر وہ رونق محفل کہاں ہے زمانہ کہہ رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    چمن میں اب کوئی اے دوست زندگی نہ رہی

    چمن میں اب کوئی اے دوست زندگی نہ رہی گلوں میں رنگ بہاروں میں دل کشی نہ رہی کہاں بنائیں نشیمن قفس سے چھٹنے پر کہ اب چمن میں کوئی ایسی شاخ ہی نہ رہی غم حیات نے سارا لہو نچوڑ لیا چراغ خانۂ مفلس میں روشنی نہ رہی تمہارے سامنے ہر حال میں جئے لیکن تمہارے بعد تمنائے زندگی نہ رہی شراب ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی راتیں کیسے کاٹیں پوچھو ہجر کے ماروں سے

    ہجر کی راتیں کیسے کاٹیں پوچھو ہجر کے ماروں سے پلکوں پلکوں اشک سجائے باتیں کیں دیواروں سے جیون نیا جوجھ رہی ہے ظلم کے بہتے دھاروں سے ہم نے کیا کیا درد سمیٹے روزانہ اخباروں سے آنگن آنگن پھول کھلیں گے پیار کی خوشبو مہکے گی امن کا پرچم ہاتھوں میں لیں کام نہ لیں تلواروں سے نظم ...

    مزید پڑھیے

    اجڑا اجڑا شہر تمنا کیسے اسے آباد کریں

    اجڑا اجڑا شہر تمنا کیسے اسے آباد کریں تم ہی قاتل تم ہی عادل ہم کس سے فریاد کریں امن و اخوت اپنا مسلک مہر و وفا ہے اپنا دین اپنا تو یہ کام نہیں ہے ظلم و استبداد کریں خوش فہمی کی پتواروں سے کشتی کھینا کیا معنی کچھ سوچیں کچھ راہ نکالیں وقت نہ یوں برباد کریں اہل جنوں نے جس بستی کو ...

    مزید پڑھیے

    دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں

    دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں ہم نے ساری عمر گنوا دی کشتی پار لگانے میں بیگانے تو بیگانے تھے بیگانوں کا شکوہ کیا اپنوں کا بھی ہاتھ رہا ہے گھر کو آگ لگانے میں پل دو پل میں ڈھ جاتے ہیں تاج محل ارمانوں کے لیکن برسوں لگ جاتے ہیں بگڑی بات بنانے میں ہوش و خرد کا دامن ...

    مزید پڑھیے