زہے زندہ دلی غم کی گل افشانی نہیں جاتی

زہے زندہ دلی غم کی گل افشانی نہیں جاتی
کچھ ایسے اشک بھی ہیں جن کی تابانی نہیں جاتی


تلاطم خیز موجوں کا تلاطم تھم گیا لیکن
جو برپا ہے کناروں پر وہ طغیانی نہیں جاتی


مرے رہبر مجھے یہ کونسی منزل پہ لے آئے
کہ مجھ سے صورت منزل بھی پہچانی نہیں جاتی


ہزاروں آشیانے پھونک ڈالے صحن گلشن میں
مگر برق ستم کی شعلہ افشانی نہیں جاتی


پلاتا ہی رہا ساقی ہمیں تو زہر کے ساغر
ترے رندوں کی پھر بھی رند سامانی نہیں جاتی


نہ جانے کیا ہوا ارمانؔ اثر اپنی دعاؤں کا
دعائیں کرتے ہیں لیکن پریشانی نہیں جاتی