چمن میں اب کوئی اے دوست زندگی نہ رہی
چمن میں اب کوئی اے دوست زندگی نہ رہی
گلوں میں رنگ بہاروں میں دل کشی نہ رہی
کہاں بنائیں نشیمن قفس سے چھٹنے پر
کہ اب چمن میں کوئی ایسی شاخ ہی نہ رہی
غم حیات نے سارا لہو نچوڑ لیا
چراغ خانۂ مفلس میں روشنی نہ رہی
تمہارے سامنے ہر حال میں جئے لیکن
تمہارے بعد تمنائے زندگی نہ رہی
شراب ناب ہے ساقی بھی ہے مغنی بھی
مگر دلوں میں تمنائے مے کشی نہ رہی
یہ کیفیت ہی رہی ان کی محفل نو میں
چراغ جلتے رہے اور روشنی نہ رہی
تمام عمر گزاری ہے رہ نوردی میں
جنون شوق میں منزل کی یاد بھی نہ رہی
اٹھ اور اشک محبت سے کر وضو ارمانؔ
سحر قریب ہے تاروں میں روشنی نہ رہی