بس آفتاب کی تنویر جیسا لگتا ہے
بس آفتاب کی تنویر جیسا لگتا ہے کتابی چہرہ ہے تصویر جیسا لگتا ہے کوئی بھی دیکھے تو مبہوت ہو کے رہ جائے وہ رخ تو حسن کی تفسیر جیسا لگتا ہے کسی بھی کام کا وہ مجھ کو چھوڑتا ہی نہیں خیال بھی ترا زنجیر جیسا لگتا ہے لکیر لمبی سی کاجل کی جس میں ہوتی ہے وہ گوشہ آنکھ کا شمشیر جیسا لگتا ...