بج رہی تھیں دور کچھ شہنائیاں کل رات کو
بج رہی تھیں دور کچھ شہنائیاں کل رات کو
کروٹیں لیتی رہیں انگڑائیاں کل رات کو
آرزو کا اک سمندر چیختا ہی رہ گیا
دل کے ساحل پہ تھیں بس خاموشیاں کل رات کو
تیرگی کا درد سناٹوں کی آہٹ کرب ہجر
ساتھ اپنے لائی تھیں خاموشیاں کل رات کو
شور و غل میں خود کو دفنا کر رکھا تھا دن تمام
برف سا پگھلا گئیں تنہائیاں کل رات کو
اس سے ملنا تنگ کوچے میں بڑا مہنگا پڑا
عمر بھر کی دے گیا رسوائیاں کل رات کو
اس کی یہ تعبیر ہے دامن میں ہے ساحل کی ریت
نیند میں تھیں خواب کی گہرائیاں کل رات کو
ہر طرف تھی اک اداسی چاند تھا نہ چاندنی
خواب اوڑھے سو رہی تھیں بدلیاں کل رات کو
تھک کے میرے ساتھ آخر سو گئیں پچھلے پہر
بھینی بھینی یاد کی پرچھائیاں کل رات کو
خامشی رکھتی رہی چن چن کے پلکوں پر مرے
یاد کی بکھری ہوئی کچھ کرچیاں کل رات کو
نیند کیا آتی کہ بستر بن چکا تھا خار زار
تھپکیاں دیتی رہی تھیں تلخیاں کل رات کو
موگرے کی نرم نازک پتیاں تیرے بغیر
سلوٹوں پر خار کی تھیں ٹہنیاں کل رات کو