بس آفتاب کی تنویر جیسا لگتا ہے
بس آفتاب کی تنویر جیسا لگتا ہے
کتابی چہرہ ہے تصویر جیسا لگتا ہے
کوئی بھی دیکھے تو مبہوت ہو کے رہ جائے
وہ رخ تو حسن کی تفسیر جیسا لگتا ہے
کسی بھی کام کا وہ مجھ کو چھوڑتا ہی نہیں
خیال بھی ترا زنجیر جیسا لگتا ہے
لکیر لمبی سی کاجل کی جس میں ہوتی ہے
وہ گوشہ آنکھ کا شمشیر جیسا لگتا ہے
تمہارے کوچے کے معلوم ہیں نشیب و فراز
مجھے وہ اپنی ہی جاگیر جیسا لگتا ہے
عجب کشش ہے ترے شہر میں مجھے جاناں
کوئی بھی رت ہو وہ کشمیر جیسا لگتا ہے
وہ چہرہ ایسا ہے آنکھیں ٹھہر ہی جاتی ہیں
کہ اک حسین سی تحریر جیسا لگتا ہے
شب فراق شب وصل میں بدل جانا
وہ میرے خواب کی تعبیر جیسا لگتا ہے
نگاہ اٹھتے ہی دیدار تیرا ہو جانا
مری دعاؤں کی تاثیر جیسا لگتا ہے
ترا خیال ہی مرہم ہے سارے زخموں کا
کوئی بھی زخم ہو اکسیر جیسا لگتا ہے
کوئی نشاں ہے نہ منزل کا ہے پتہ انورؔ
یہ راستہ بھی تو تقدیر جیسا لگتا ہے