عقیدت خلوص و محبت نہیں ہے

عقیدت خلوص و محبت نہیں ہے
دلوں میں وہ پہلی سی چاہت نہیں ہے


مرے پیار کی کوئی قیمت نہیں ہے
محبت ہے مال تجارت نہیں ہے


نہیں خالی ہے یہ جہاں منتوں سے
مگر پہلی سی اب قیادت نہیں ہے


چلے آنا جب بھی کرے آپ کا دل
مرے دل میں کوئی کدورت نہیں ہے


کوئی کام ہو سخت و دشوار تر ہے
اگر اس کی چشم عنایت نہیں ہے


یوں خود میں ہے گم ہر کوئی آج جیسے
کسی کو کسی کی ضرورت نہیں ہے


کہاں لے کے بیٹھے ہو تم رشتے ناطے
یہاں بھائی بھائی میں الفت نہیں ہے


دفاع اپنا کوئی کرے بھی تو کیسے
کہ وہ حوصلہ وہ شجاعت نہیں ہے


نہ ہیں محتسب وہ نہ ہے دار کوئی
مگر مجھ میں سچ کی جسارت نہیں ہے


تری کار فرمائیاں دیکھنے کی
کسی بھی نظر میں بصارت نہیں ہے


بنا وقت انورؔ کے زخموں کا مرہم
تری چارہ گر اب ضرورت نہیں ہے