آنسوؤں سے لکھی تحریر بھی ہو سکتی ہے

آنسوؤں سے لکھی تحریر بھی ہو سکتی ہے
غم کی رخسار پہ تفسیر بھی ہو سکتی ہے


تیری دنیا میں مرا کام ابھی باقی ہے
لوٹنے میں ذرا تاخیر بھی ہو سکتی ہے


دم رخصت ترے ہونٹوں کی یہ پھیکی مسکان
میرے ان پاؤں کی زنجیر بھی ہو سکتی ہے


دل سے کھیلو نہ مرے اس کے کسی گوشے میں
آپ کی ہی کوئی تصویر بھی ہو سکتی ہے


شک نہیں اس میں کوئی وقت اگر ساتھ رہا
پھر وہیں اک نئی تعمیر بھی ہو سکتی ہے


خواب ہی خواب کی دنیا ہے مری آنکھوں میں
ان کی کوئی حسیں تعبیر بھی ہو سکتی ہے


زندگی دشت کی صورت ہی سہی صبر تو کر
ایک دن وادئ کشمیر بھی ہو سکتی ہے


وقت آنے تو دو ظلمت کو مٹانے کے لئے
صندلی ہاتھوں میں شمشیر بھی ہو سکتی ہے


عاجزی پر کسی ظالم کی کبھی رحم نہ کر
مکر ہو سکتا ہے تدبیر بھی ہو سکتی ہے


آرزو میری دعا آپ کی رنگ لائے گی
ورنہ یہ آخری تحریر بھی ہو سکتی ہے


کچھ رہے یا نہ رہے پاس انا ہے انورؔ
بس انا ہی مری جاگیر بھی ہو سکتی ہے