Anjum Khaleeq

انجم خلیق

  • 1950

پاکستان کے شاعر اور صحافی

A poet and journalist from Pakistan

انجم خلیق کی غزل

    تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی

    تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی کہ تن ڈھکنے پہ بھی جسموں کی عریانی نہیں جاتی یہاں عہد حکومت عجز کا کس طور آئے گا کہ تاج و تخت کی فطرت سے سلطانی نہیں جاتی بجھے سورج پہ بھی آنگن مرا روشن ہی رہتا ہے دہکتے ہوں اگر جذبے تو تابانی نہیں جاتی مقدر کر لے اپنی سی ہم اپنی کر گزرتے ...

    مزید پڑھیے

    کار ہنر سنوارنے والوں میں آئے گا

    کار ہنر سنوارنے والوں میں آئے گا جب بھی ہمارا نام حوالوں میں آئے گا ٹیلوں کو ساتھ لے کے جو اڑتی رہی ہوا صحرا کا رنگ برف کے گالوں میں آئے گا جب آفتاب عمر کی ڈھلنے لگے گی دھوپ تب روشنی کا فن مرے بالوں میں آئے گا کیسا فراق کیسی جدائی کہاں کا ہجر وہ جائے گا اگر تو خیالوں میں آئے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا

    یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا کمک میں تیر تو بھیجے کمان بھول گیا جنوں نے مجھ سے تعارف کے مرحلے میں کہا میں وہ ہنر ہوں جسے یہ جہان بھول گیا کچھ اس تپاک سے راہیں لپٹ پڑیں مجھ سے کہ میں تو سمت سفر کا نشان بھول گیا خمار قربت منزل تھا نارسی کا جواز گلی میں آ کے میں اس کا مکان بھول ...

    مزید پڑھیے

    کچھ عذر پس وعدہ خلافی نہیں رکھتے

    کچھ عذر پس وعدہ خلافی نہیں رکھتے ہو کیسے مسیحا دم شافی نہیں رکھتے ایسے تو نہ تھے زخم کہ جو بھر ہی نہ پاتے احباب مگر ظرف تلافی نہیں رکھتے اس چین سے جینے میں کوئی بھید نہیں ہے بس یہ کہ تمنائیں اضافی نہیں رکھتے اس دور میں انصاف پنپ ہی نہیں سکتا اخلاص قلم جس میں صحافی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    صداقتوں کو یہ ضد ہے زباں تلاش کروں

    صداقتوں کو یہ ضد ہے زباں تلاش کروں جو شے کہیں نہ ملے میں کہاں تلاش کروں مری ہوس کے مقابل یہ شہر چھوٹے ہیں خلا میں جا کے نئی بستیاں تلاش کروں اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں مکاں فریب خوشامد معاش سمجھوتے برائے کشتیٔ جاں بادباں تلاش کروں تو ...

    مزید پڑھیے

    مرے جنوں کو ہوس میں شمار کر لے گا

    مرے جنوں کو ہوس میں شمار کر لے گا وہ میرے تیر سے مجھ کو شکار کر لے گا مجھے گماں بھی نہیں تھا کہ ڈوبتا ہوا دل محیط جسم کو اک روز پار کر لے گا میں اس کی راہ چلوں بھی تو فائدہ کیا ہے وہ کوئی اور روش اختیار کر لے گا فصیل شہر میں رکنے کی ہی نہیں یہ خبر جو کام ہم سے نہ ہوگا غبار کر لے ...

    مزید پڑھیے

    کہاں تک اور اس دنیا سے ڈرتے ہی چلے جانا

    کہاں تک اور اس دنیا سے ڈرتے ہی چلے جانا بس اب ہم سے نہیں ہوتا مکرتے ہی چلے جانا میں اب تو شہر میں اس بات سے پہچانا جاتا ہوں تمہارا ذکر کرنا اور کرتے ہی چلے جانا یہاں آنسو ہی آنسو ہیں کہاں تک اشک پونچھو گے تم اس بستی سے گزرو تو گزرتے ہی چلے جانا مری خاطر سے یہ اک زخم جو مٹی نے ...

    مزید پڑھیے

    ستم گروں سے ڈروں چپ رہوں نباہ کروں

    ستم گروں سے ڈروں چپ رہوں نباہ کروں خدا وہ وقت نہ لائے میں یہ گناہ کروں مری نظر میں انا کے شرر سلامت ہیں انہیں بجھاؤں تو تعظیم کم نگاہ کروں مری زباں کو سلیقہ نہیں گزارش کا میں اپنے حق سے زیادہ نہ کوئی چاہ کروں پہاڑ میرے تہور کا استعارہ ہے میں پستیوں سے بھلا کیسے رسم و راہ ...

    مزید پڑھیے

    خاک کا رزق یہاں ہر کس و ناکس نکلا

    خاک کا رزق یہاں ہر کس و ناکس نکلا یہ بدن سینچنے والا بڑا بے بس نکلا وہ جو کرتا تھا سدا خرقۂ درویش کی بات وہ بھی دربار میں وارفتۂ اطلس نکلا زرفشاں ہے مری زرخیز زمینوں کا بدن ذرہ ذرہ مرے پنجاب کا پارس نکلا میری حیرت کو بھی تاریخ میں محفوظ کرو میرے احباب میں ہر شخص بروٹس ...

    مزید پڑھیے

    یہاں جو زخم ملتے ہیں وہ سلتے ہیں یہیں میرے

    یہاں جو زخم ملتے ہیں وہ سلتے ہیں یہیں میرے تمہارے شہر کے سب لوگ تو دشمن نہیں میرے تلاش عہد رفتہ میں عجائب گھر بھی دیکھے ہیں وہاں بھی سب حوالے ہیں کہیں تیرے کہیں میرے ذرا سی میں نے ترجیحات کی ترتیب بدلی تھی کہ آپس میں الجھ کر رہ گئے دنیا و دیں میرے فلک حد ہے کہ سرحد ہے زمیں معدن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3