تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی
تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی کہ تن ڈھکنے پہ بھی جسموں کی عریانی نہیں جاتی یہاں عہد حکومت عجز کا کس طور آئے گا کہ تاج و تخت کی فطرت سے سلطانی نہیں جاتی بجھے سورج پہ بھی آنگن مرا روشن ہی رہتا ہے دہکتے ہوں اگر جذبے تو تابانی نہیں جاتی مقدر کر لے اپنی سی ہم اپنی کر گزرتے ...