کار ہنر سنوارنے والوں میں آئے گا

کار ہنر سنوارنے والوں میں آئے گا
جب بھی ہمارا نام حوالوں میں آئے گا


ٹیلوں کو ساتھ لے کے جو اڑتی رہی ہوا
صحرا کا رنگ برف کے گالوں میں آئے گا


جب آفتاب عمر کی ڈھلنے لگے گی دھوپ
تب روشنی کا فن مرے بالوں میں آئے گا


کیسا فراق کیسی جدائی کہاں کا ہجر
وہ جائے گا اگر تو خیالوں میں آئے گا


انساں سے پیار حسن پرستی وطن سے عشق
ہم نے کیا ہے یوں کہ مثالوں میں آئے گا


انجمؔ خلیق اک نئے انجم کو دیکھنا
جس دن وہ آگہی کے اجالوں میں آئے گا