Anjum Khaleeq

انجم خلیق

  • 1950

پاکستان کے شاعر اور صحافی

A poet and journalist from Pakistan

انجم خلیق کی غزل

    اب شہر میں اقدار کشی ایک ہنر ہے

    اب شہر میں اقدار کشی ایک ہنر ہے فن جرم ہے معیار کشی ایک ہنر ہے دشمن سے تو کیا حق عداوت کا گلا جب یاروں کے لئے یار کشی ایک ہنر ہے کیا کیا ہے ندامت انہیں اب اپنی روش پر کہتے تھے جو کردار کشی ایک ہنر ہے جس دور میں ہو لفظ کی حرمت کی تجارت اس دور میں افکار کشی ایک ہنر ہے خاطر سے جو ...

    مزید پڑھیے

    کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے

    کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے کہو کیا بات کرتی ہے کبھی صحرا کی خاموشی کہا اس خامشی میں بھی تو اک تقریر ہوتی ہے کہا میں نے کہ رنج بے مکانی کب ستاتا ہے کہا جب مقبرے یا قصر کی تعمیر ہوتی ہے کہا میں نے حصار ذات میں یہ نفس کی دنیا جواب ...

    مزید پڑھیے

    جہاں سینوں میں دل شانوں پہ سر آباد ہوتے ہیں

    جہاں سینوں میں دل شانوں پہ سر آباد ہوتے ہیں وہی دو چار تو بستی میں گھر آباد ہوتے ہیں بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں بزرگوں کو تبرک کی طرح رکھو مکانوں میں بلائیں رد کئے جانے سے گھر آباد ہوتے ہیں زباں بندی کے موسم میں گلی کوچوں ...

    مزید پڑھیے

    پلکوں تک آ کے اشک کا سیلاب رہ گیا

    پلکوں تک آ کے اشک کا سیلاب رہ گیا دریا درون حلقۂ گرداب رہ گیا یہ کون ہے کہ جس کو ابھارے ہوئے ہے موج وہ شخص کون تھا جو تہہ آب رہ گیا نخل انا میں زور نمو کس غضب کا تھا یہ پیڑ تو خزاں میں بھی شاداب رہ گیا کیا شہر پر کھلی ہی نہیں آیت خلوص کیا ایک میں ہی واقف آداب رہ گیا کچھ ذکر یار جس ...

    مزید پڑھیے

    بدل چکے ہیں سب اگلی روایتوں کے نصاب

    بدل چکے ہیں سب اگلی روایتوں کے نصاب جو تھے ثواب و گنہ ہو گئے گناہ و ثواب نمو کے باب میں وہ بے بسی کا عالم ہے بہار مانگ رہی ہے خزاں رتوں سے گلاب بدل کے جام بھی ہم تو رہے خسارے میں ہمارے پاس لہو تھا تمہارے پاس شراب مرے کہے کو امانت سمجھنا موج ہوا میں آنے والے زمانوں سے کر رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے ذوق سفر کو سفر ستارا کریں

    ہم اپنے ذوق سفر کو سفر ستارا کریں نہ کوئی زائچہ کھینچیں نہ استخارہ کریں اسی سے لفظ بنے ماں بھی ایک ہے جن میں تو کیسے حرف کی بے حرمتی گوارہ کریں اسی شرر کو جو اک عہد یاس نے بخشا کبھی دیا کبھی جگنو کبھی ستارہ کریں شعور شعر نے وہ آنکھ کھول دی دل میں کہ اب تو ہم پس امکان بھی نظارہ ...

    مزید پڑھیے

    چاہے تو شوق سے مجھے وحشت دل شکار کر

    چاہے تو شوق سے مجھے وحشت دل شکار کر اپنوں سے کٹ چکا ہوں میں اپنی انا ابھار کر جن کو کہا نہ جا سکا جن کو سنا نہیں گیا وہ بھی ہیں کچھ حکایتیں ان کو بھی تو شمار کر خود کو اذیتیں نہ دے مجھ کو اذیتیں نہ دے خود پہ بھی اختیار رکھ مجھ پہ بھی اعتبار کر اس کے یقین حسن کا حسن یقیں تو ...

    مزید پڑھیے

    ہر شعر سے میرے ترا پیکر نکل آئے

    ہر شعر سے میرے ترا پیکر نکل آئے منظر کو ہٹا کر پس منظر نکل آئے یہ کون نکل آیا یہاں سیر چمن کو شاخوں سے مہکتے ہوئے زیور نکل آئے اس بار بلاوے میں کسی ماہ جبیں کے وہ زور طلب تھا کہ مرے پر نکل آئے یہ وصل سکندر کے مقدر میں نہیں تھا ہم کیسے مقدر کے سکندر نکل آئے شب آئی تو ظلمت کی مذمت ...

    مزید پڑھیے

    بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا

    بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا کہ خود ہی اپنے کئے کا حساب دیکھ لیا یہ نسل نسل مسافت بہل رہی ہے یوں ہی سراب جاگتے سوتے میں خواب دیکھ لیا دلوں کی تیرگی دھونے کو لوگ اٹھے ہیں جب چھتوں پر اترا ہوا آفتاب دیکھ لیا سروں سے تاج بڑے جسم سے عبائیں بڑی زمانے ہم نے ترا انتخاب دیکھ لیا وہ ...

    مزید پڑھیے

    جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا

    جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا اس دل کی یورشوں کا تسلسل نہ جائے گا خیموں سے تا فرات جو دریائے خوں ہے یہ اس پر سے مصلحت کا کوئی پل نہ جائے گا اس کو گماں نہیں تھا کہ عہد خزاں میں بھی یہ ذوق نغمہ ریزئ بلبل نہ جائے گا یہ ابر آگہی جو برستا رہا یونہی مٹی کا یہ وجود مرا گھل نہ جائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3