Amjad Najmi

امجد نجمی

  • 1899 - 1974

امجد نجمی کی غزل

    سوز ہے دل کے داغ میں اب تک

    سوز ہے دل کے داغ میں اب تک روشنی ہے چراغ میں اب تک زلف مشکیں تھی مہرباں کس کی بو بسی ہے دماغ میں اب تک تشنہ کاموں کو اس سے کیا حاصل مے دھری ہے ایاغ میں اب تک ہائے آوارگیٔ باد صبا ہے یہ کس کے سراغ میں اب تک گو خزاں کا بھی دور دورہ ہے پھول کھلتے ہیں باغ میں اب تک روز و شب مارے مارے ...

    مزید پڑھیے

    تم جلوہ دکھاؤ تو ذرا پردۂ در سے

    تم جلوہ دکھاؤ تو ذرا پردۂ در سے ہم تھک گئے نظارۂ خورشید و قمر سے مجبور نمائش نہیں کچھ حسن ہی ان کا ہم بھی تو ہیں مجبور تقاضائے نظر سے بچھڑا ہوا جیسے کوئی ملتے ہی لپٹ جائے یوں تیر ترا آ کے لپٹتا ہے جگر سے کٹتے نہیں کیوں شام جدائی کے یہ لمحے ملتی نہیں کیوں ظلمت شب جا کے سحر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کچھ انتہا افسردگی کی

    نہیں کچھ انتہا افسردگی کی یہی ہے رسم شاید عاشقی کی لب لعلیں پہ یہ لہریں ہنسی کی یہی ڈوبے نہ کشتی زندگی کی ڈھلے آنسو کہ یہ ٹوٹے ستارے سکوت شب میں یاد آئی کسی کی چمن میں بوٹا بوٹا دیکھتا ہے ادائیں ان کی مستانہ روی کی بڑھائے جا قدم ذوق طلب میں شکایت کر نہ عجز و خستگی کی اسی کا ...

    مزید پڑھیے

    آشفتہ نوائی سے اپنی دنیا کو جگاتا جاتا ہوں

    آشفتہ نوائی سے اپنی دنیا کو جگاتا جاتا ہوں دیوانہ ہوں دیوانوں کو میں ہوش میں لاتا جاتا ہوں امید کی شمعیں رہ رہ کر میں دل میں جلاتا جاتا ہوں جب جل چکتی ہیں یہ شمعیں پھر سب کو بجھاتا جاتا ہوں تم دیکھ رہے ہو میخانے میں جرأت رندانہ میری میں خود بھی پیتا جاتا ہوں تم کو بھی پلاتا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    جب کوئی لیتا ہے میرے سامنے نام غزل

    جب کوئی لیتا ہے میرے سامنے نام غزل یاد آتا ہے مجھے اک نازک اندام‌ غزل اس حریم ناز اس خلوت سرائے راز میں بارہا جذبات نے باندھا ہے احرام غزل ایک رشک ماہ کا میں کر رہا ہوں تذکرہ آسماں سے کیوں نہ ہو اونچا مرا بام غزل مے کدہ بھی گونج اٹھا شور نوشا نوش سے کس قدر ہے کیف آور یہ مرا جام ...

    مزید پڑھیے

    صبح دم آیا تو کیا ہنگام شام آیا تو کیا

    صبح دم آیا تو کیا ہنگام شام آیا تو کیا تو مری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا التفات اولیں کی بات ہی کچھ اور ہے مجھ تک ان کی بزم میں اب دور جام آیا تو کیا طاقت نظارہ جب منت پذیر ہوش ہو بہر جلوہ پھر کوئی بالائے بام آیا تو کیا شورش‌ ہنگامہ منصور کی تجدید ہے قتل کو میرے وہ با ایں ...

    مزید پڑھیے

    جب دل ہی نہیں ہے پہلو میں پھر عشق کا سودا کون کرے

    جب دل ہی نہیں ہے پہلو میں پھر عشق کا سودا کون کرے اب ان سے محبت کون کرے اب ان کی تمنا کون کرے اب ہجر کے صدمے سہنے کو پتھر کا کلیجہ کون کرے ان لمبی لمبی راتوں کا مر مر کے سویرا کون کرے ہم رسم وفا کو مانتے ہیں آداب محبت جانتے ہیں ہم بات کی تہہ پہچانتے ہیں پھر آپ کو رسوا کون کرے اے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2