تم جلوہ دکھاؤ تو ذرا پردۂ در سے

تم جلوہ دکھاؤ تو ذرا پردۂ در سے
ہم تھک گئے نظارۂ خورشید و قمر سے


مجبور نمائش نہیں کچھ حسن ہی ان کا
ہم بھی تو ہیں مجبور تقاضائے نظر سے


بچھڑا ہوا جیسے کوئی ملتے ہی لپٹ جائے
یوں تیر ترا آ کے لپٹتا ہے جگر سے


کٹتے نہیں کیوں شام جدائی کے یہ لمحے
ملتی نہیں کیوں ظلمت شب جا کے سحر سے


کرنا ہے کسی دن اسے ہم دوش ثریا
ہے آہ ابھی تک مری محروم اثر سے


ہو جائیں ہمیشہ کے لیے آپ جو میرے
میں مانگ لوں کچھ عمر یہاں عمر خضر سے


ایسا تو نہ کر پائے گا کوئی بھی فسوں کار
وہ کر گئے جو سادگیٔ حسن نظر سے


آسودۂ منزل نہیں آگاہ صعوبت
محروم ہے وہ لذت دورئ سفر سے