سوز ہے دل کے داغ میں اب تک

سوز ہے دل کے داغ میں اب تک
روشنی ہے چراغ میں اب تک


زلف مشکیں تھی مہرباں کس کی
بو بسی ہے دماغ میں اب تک


تشنہ کاموں کو اس سے کیا حاصل
مے دھری ہے ایاغ میں اب تک


ہائے آوارگیٔ باد صبا
ہے یہ کس کے سراغ میں اب تک


گو خزاں کا بھی دور دورہ ہے
پھول کھلتے ہیں باغ میں اب تک


روز و شب مارے مارے پھرتے ہیں
ہم تلاش فراغ میں اب تک


یہ بھی بجھ جائے گی کبھی نجمیؔ
روشنی ہے چراغ میں اب تک