Amjad Najmi

امجد نجمی

  • 1899 - 1974

امجد نجمی کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    ترانۂ غم پنہاں ہے ہر خوشی اپنی

    ترانۂ غم پنہاں ہے ہر خوشی اپنی کہ ایک درد مسلسل ہے زندگی اپنی بہل نہ جائے کہیں یہ دل خزاں مانوس بہار آ کے دکھاتی ہے دل کشی اپنی کسی کے چہرۂ زیبا سے اس کو کیا نسبت یوں ہی بکھیرا کرے چاند چاندنی اپنی شعور چاک گریباں کدھر ہے دامن یار جنوں کی حد سے ملی جا کے عاشقی اپنی بتا کہ یہ ...

    مزید پڑھیے

    بلبل رنگیں نوا خاموش ہے

    بلبل رنگیں نوا خاموش ہے باغ کی ساری فضا خاموش ہے گل کھلائے اس نے کیا کیا باغ میں پھر بھی کس درجہ صبا خاموش ہے آرزو جن کی تھی مجھ کو مل گئے اب زبان التجا خاموش ہے بے کسی یہ کس نے لی تیری پناہ گور کا کس کی دیا خاموش ہے شورش دل شورش محشر نہیں زندگی اپنی بھی کیا خاموش ہے سوچتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کتنا مختصر ہے یہ زندگی کا افسانہ

    کتنا مختصر ہے یہ زندگی کا افسانہ ایک گام‌ مردانہ ایک رقص مستانہ تو ہی ایک شاکی ہے ذوق تشنہ کامی کا غرق موج صہبا ہے جبکہ سارا مے خانہ بس یہی ہے لے دے کے دوریٔ رہ منزل دو قدم دلیرانہ دو قدم شتابانہ حق تجھے ہے کیا حاصل زیر چرخ جینے کا حادثات‌‌ عالم سے تو اگر ہے بیگانہ دل نہیں وہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر ہم کو اسیر آرزو

    دیکھ کر ہم کو اسیر آرزو اور بھی وہ ہو گئے بیگانہ خو پھاڑ ڈالا دست وحشت نے جسے پھر کریں کیا اس گریباں کا رفو پھر سجاؤ محفل دار و رسن مضطرب ہے پھر زبان گفتگو گر زیادہ سے زیادہ ہوں گنہ کم نہیں ہے آیت‌ لا‌ تقنطو مجھ کو ڈر لگتا ہے اپنے شہر میں ہیں بہت اونچے یہاں کے کاخ و کو جب بھی ...

    مزید پڑھیے

    ان کے وعدوں کا حال کیا کہئے

    ان کے وعدوں کا حال کیا کہئے ہفتہ و ماہ و سال کیا کہئے آرزوئے وصال کیا کہئے ذہن کا انتقال کیا کہئے حسن کو میں خدا سمجھتا ہوں ہائے میرا خیال کیا کہئے وہی صبح و مسا وہی شب و روز زندگی ہے وبال کیا کہئے ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا میرا طرز سوال کیا کہئے سسکیاں اک مریض غم کی ہائے آپ کی ...

    مزید پڑھیے

تمام

10 نظم (Nazm)

    تبسم

    چمک ہیرے سے بڑھ کر اے تبسم تجھ میں پنہاں ہے انہیں ہونٹوں پہ ضو بکھرا تو جن ہونٹوں کو شایاں ہے مثال برق تو گرتا ہے جان ناشکیبا پر گری تھی جس طرح بجلی کلیم طور سینا پر نہ ہوگا لعل کوئی تیری قیمت کا بدخشاں میں تو ہی اک مصرع برجستہ ہے قدرت کے دیواں میں جہاں کی دولتوں میں کوئی بھی دولت ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کم ہے

    روشنی کم ہے نہ کر اس کی شکایت ہمدم روشنی کم ہی رہے تو اچھا شادمانی و خوشی کے ہم راہ اک نہ اک غم بھی رہے تو اچھا دشت و صحرا ہو کہ باغ دبستاں سطح دریا ہو کہ چٹیل میدان رات ہر چیز پہ ہے سایہ نشاں روشنی کم ہے اندھیرا ہی زیادہ ہے یہاں شاہراہوں کے نظاروں پہ نہ جا قمقموں کی نظر افروز ...

    مزید پڑھیے

    وہ نہیں آئے

    چھٹ گئی ظلمت کٹ گئی رات پھٹ گئی پو گم ہوئے تارے کھو گیا شبنم دھل گئے باغ کھل گئیں کلیاں ہنس دئیے پھول اڑ گئے پنچھی جاگ اٹھی خلق ہو گئی صبح چڑھ گیا سورج بڑھ گئے سائے وہ نہیں آئے وہ نہیں آئے

    مزید پڑھیے

    اٹھ

    اٹھ کہ خورشید آسماں پر جلوہ افشاں ہو گیا اٹھ کہ گویا تیری بیداری کا ساماں ہو گیا اٹھ کہ پہنچا چاہتے ہیں غیر منزل کے قریب تو بدلتا ہے ابھی تک کروٹیں اے بد نصیب اٹھ کہ جد و جہد سے ہو تیری ہستی کامیاب خواب آخر خواب ہے کب تک رہے گا محو خواب اٹھ کہ دنیا کو ترے ذوق طلب سے کام ہے زندگی ...

    مزید پڑھیے

    تم اگر چاہو تو

    اس سے پہلے کہ شب ماہ کے ٹھنڈے سائے گرمیٔ صبح درخشاں سے پگھل کر رہ جائیں اس سے پہلے کہ ستاروں پہ اجالوں کی گھٹا چھا جائے اس سے پہلے کہ یہ شبنم کے گہر ہائے لطیف نذر خورشید زر افشاں ہو جائیں اس سے پہلے کہ چراغوں کے چمکتے موتی صدف نور سحر میں کھو جائیں اس سے پہلے کہ شب ہجر کا آزار ہو ...

    مزید پڑھیے

تمام