Amjad Najmi

امجد نجمی

  • 1899 - 1974

امجد نجمی کی نظم

    تبسم

    چمک ہیرے سے بڑھ کر اے تبسم تجھ میں پنہاں ہے انہیں ہونٹوں پہ ضو بکھرا تو جن ہونٹوں کو شایاں ہے مثال برق تو گرتا ہے جان ناشکیبا پر گری تھی جس طرح بجلی کلیم طور سینا پر نہ ہوگا لعل کوئی تیری قیمت کا بدخشاں میں تو ہی اک مصرع برجستہ ہے قدرت کے دیواں میں جہاں کی دولتوں میں کوئی بھی دولت ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کم ہے

    روشنی کم ہے نہ کر اس کی شکایت ہمدم روشنی کم ہی رہے تو اچھا شادمانی و خوشی کے ہم راہ اک نہ اک غم بھی رہے تو اچھا دشت و صحرا ہو کہ باغ دبستاں سطح دریا ہو کہ چٹیل میدان رات ہر چیز پہ ہے سایہ نشاں روشنی کم ہے اندھیرا ہی زیادہ ہے یہاں شاہراہوں کے نظاروں پہ نہ جا قمقموں کی نظر افروز ...

    مزید پڑھیے

    وہ نہیں آئے

    چھٹ گئی ظلمت کٹ گئی رات پھٹ گئی پو گم ہوئے تارے کھو گیا شبنم دھل گئے باغ کھل گئیں کلیاں ہنس دئیے پھول اڑ گئے پنچھی جاگ اٹھی خلق ہو گئی صبح چڑھ گیا سورج بڑھ گئے سائے وہ نہیں آئے وہ نہیں آئے

    مزید پڑھیے

    اٹھ

    اٹھ کہ خورشید آسماں پر جلوہ افشاں ہو گیا اٹھ کہ گویا تیری بیداری کا ساماں ہو گیا اٹھ کہ پہنچا چاہتے ہیں غیر منزل کے قریب تو بدلتا ہے ابھی تک کروٹیں اے بد نصیب اٹھ کہ جد و جہد سے ہو تیری ہستی کامیاب خواب آخر خواب ہے کب تک رہے گا محو خواب اٹھ کہ دنیا کو ترے ذوق طلب سے کام ہے زندگی ...

    مزید پڑھیے

    تم اگر چاہو تو

    اس سے پہلے کہ شب ماہ کے ٹھنڈے سائے گرمیٔ صبح درخشاں سے پگھل کر رہ جائیں اس سے پہلے کہ ستاروں پہ اجالوں کی گھٹا چھا جائے اس سے پہلے کہ یہ شبنم کے گہر ہائے لطیف نذر خورشید زر افشاں ہو جائیں اس سے پہلے کہ چراغوں کے چمکتے موتی صدف نور سحر میں کھو جائیں اس سے پہلے کہ شب ہجر کا آزار ہو ...

    مزید پڑھیے

    زندگی

    دنیا میں تجھ کو ہے اگر ارمان زندگی تدبیر سے تو باندھ لے پیمان زندگی تاب و تب عمل خلش کوشش دوام ان سے بہم پہنچتا ہے سامان زندگی کر لے رفو تو جوشش کردار سے اسے کیوں کر رہا ہے چاک گریبان زندگی جس زندگی میں جوش خودی کا نہ ہو خیال وہ زندگی نہیں کبھی شایان زندگی کر نوح بن کے اس کا تو ...

    مزید پڑھیے

    افکار پریشاں

    یہ عروج دولت قیصری یہ شکوہ تاج سکندری کہ یہاں تو خون غریب سے ہے تپش میں نبض تونگری وہی خواجگی وہی خسروی وہی رنگ و نسل کی برتری یہی ہے تمدن مغربی کوئی مجھ سے سن لے کھری کھری جو ہے طرز بادہ کشاں یہی جو ہے میکدے کا سماں یہی خم و شیشہ میں مئے لالہ گوں یوں ہی سڑ رہے گی دھری دھری یہ ...

    مزید پڑھیے

    پیچ و تاب

    پھر تصور کھا رہا ہے پیچ و تاب پھر وہی ہیجان و حرکت کرب و درد و اضطراب پھر وہی دھندلے نقوش ماہ و سال پھر وہی صبح بہاراں پھر وہی شام وصال پھر وہی بیتے ہوئے لمحوں کی یاد پھر وہی موجیں وہی کشتی وہی باد مراد پھر وہی رقص شرار زندگی پھر وہی حسن لطافت ریز کی تابندگی پھر وہی وعدوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    کاروان حیات

    یہ کون کہتا ہے انساں کا کاروان حیات پلٹ کے آنے کو ہے بے گناہی کی جانب وہی گناہ وہی معصیت وہی بدبو وہی ہے درد وہی کروٹیں وہی پہلو وہی فساد وہی شر ہی تمرد ہے دماغ و دل پہ مسلط وہی تشدد ہے یہ کون کہتا ہے انساں کا کاروان حیات پلٹ کے آنے کو ہے بے گناہی کی جانب میں دیکھتا ہوں کہ انساں ...

    مزید پڑھیے

    شکست جام

    گر گیا یہ دودھ کا پیمانہ میرے ہاتھ سے ہو گئی اک لغزش مستانہ میرے ہاتھ سے یوں زمیں پر جا گرا ہاتھوں سے میرے چھوٹ کر گر پڑے گردوں سے جیسے کوئی تارا ٹوٹ کر غش اسے آیا کچھ ایسا کھا کے چکر گر پڑا ہاتھ سے مے خوار کے کیوں آج ساغر گر پڑا شاخ گل سے فرش پر بلبل تڑپ کر گر گئی یہ گرا نیچے کہ مجھ ...

    مزید پڑھیے