Amjad Mirza

امجد مرزا

امجد مرزا کی غزل

    جب بھی دیس کو واپس جاؤں آنکھ میں آنسو آئے

    جب بھی دیس کو واپس جاؤں آنکھ میں آنسو آئے ذہن میں ماضی کو لوٹاؤں آنکھ میں آنسو آئے اپنے شہر کے گونگے بہرے لوگوں کو میں اپنے جب بھی دل کی بات سناؤں آنکھ میں آنسو آئے قدم قدم پر دھوکے باز ہیں پیار جتاتے ہیں ان کے راز سمجھ نہ پاؤں آنکھ میں آنسو آئے یہ مسکانیں جھوٹی خوشیاں کب تک ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسی چل رہی تھی ہوا دل نہیں لگا

    کچھ ایسی چل رہی تھی ہوا دل نہیں لگا میلے میں زندگی کے ذرا دل نہیں لگا تنہائیوں نے مجھ کو نوازا تمام عمر محفل کے شور میں بخدا دل نہیں لگا دنیائے کاروبار میں اے تاجر عظیم سارا متاع و مال لگا دل نہیں لگا میں رونقوں سے شہر کی مایوس جب ہوا اہل خرد نے مجھ سے کہا دل نہیں لگا بے زاریوں ...

    مزید پڑھیے

    چھائی جو ہر سو بدلی کالی آنکھ میں آنسو آئے

    چھائی جو ہر سو بدلی کالی آنکھ میں آنسو آئے دیکھ سکے نہ پنچھی ڈالی آنکھ میں آنسو آئے میرے دیس کی جنت جیسی دھرتی اجڑی اجڑی ہر جا دیکھی جب بد حالی آنکھ میں آنسو آئے خیموں کی بستی میں وہ جو زندہ لاشیں ہیں دیکھ کے ان کی آنکھ سوالی آنکھ میں آنسو آئے ٹھنڈا سینہ دھرتی کا ہے بھوک کے ...

    مزید پڑھیے

    بے پردہ ہو کے جب وہ لب بام آ گیا

    بے پردہ ہو کے جب وہ لب بام آ گیا آنکھوں پہ میری دید کا الزام آ گیا تا صبح کروٹیں ہی بدلتے رہیں گے ہم ان کا اگر خیال سر شام آ گیا بیباکیوں پہ ان کی کسی نے نظر نہ کی میری نگاہ شوق پہ الزام آ گیا اس دور میں بہت ہی غنیمت کہو اسے دکھ میں اگر کسی کے کوئی کام آ گیا کتنی ہماری عمر محبت ...

    مزید پڑھیے

    گیا وہ دور ہواؤں سے تنگ ہونے کا

    گیا وہ دور ہواؤں سے تنگ ہونے کا کوئی ملال نہیں اپنے سنگ ہونے کا بسا ہوا ہے نگاہوں میں ایک ہی منظر بڑا ہی شوق تھا عکاس رنگ ہونے کا وہی جہان حوادث وہی کھلی آنکھیں قریب مرگ ہے احساس دنگ ہونے کا صدائے ساز جو بھاتی ہے دو گھڑی دل کا گمان تار نفس پہ ہے چنگ ہونے کا مجھے کسی سے بھی ...

    مزید پڑھیے