کچھ ایسی چل رہی تھی ہوا دل نہیں لگا
کچھ ایسی چل رہی تھی ہوا دل نہیں لگا
میلے میں زندگی کے ذرا دل نہیں لگا
تنہائیوں نے مجھ کو نوازا تمام عمر
محفل کے شور میں بخدا دل نہیں لگا
دنیائے کاروبار میں اے تاجر عظیم
سارا متاع و مال لگا دل نہیں لگا
میں رونقوں سے شہر کی مایوس جب ہوا
اہل خرد نے مجھ سے کہا دل نہیں لگا
بے زاریوں کا پوچھا جو احباب نے سبب
میں نے جواب ان کو دیا دل نہیں لگا
امجدؔ تو چار دن کو ہی ٹھہرا سرائے میں
پھر بھی وہاں سکوں نہ ملا دل نہیں لگا