جب بھی دیس کو واپس جاؤں آنکھ میں آنسو آئے

جب بھی دیس کو واپس جاؤں آنکھ میں آنسو آئے
ذہن میں ماضی کو لوٹاؤں آنکھ میں آنسو آئے


اپنے شہر کے گونگے بہرے لوگوں کو میں اپنے
جب بھی دل کی بات سناؤں آنکھ میں آنسو آئے


قدم قدم پر دھوکے باز ہیں پیار جتاتے ہیں
ان کے راز سمجھ نہ پاؤں آنکھ میں آنسو آئے


یہ مسکانیں جھوٹی خوشیاں کب تک بانٹوں میں
کس کو دل کے زخم دکھاؤں آنکھ میں آنسو آئے


کوئی نہ میرے آنسو پونچھے گلے نہ کوئی لگائے
کس سے اب میں آس لگاؤں آنکھ میں آنسو آئے


درد میں ڈوبا کیسے لکھوں دنیا کا افسانہ
امجدؔ جب بھی قلم اٹھاؤں آنکھ میں آنسو آئے