چھائی جو ہر سو بدلی کالی آنکھ میں آنسو آئے
چھائی جو ہر سو بدلی کالی آنکھ میں آنسو آئے
دیکھ سکے نہ پنچھی ڈالی آنکھ میں آنسو آئے
میرے دیس کی جنت جیسی دھرتی اجڑی اجڑی
ہر جا دیکھی جب بد حالی آنکھ میں آنسو آئے
خیموں کی بستی میں وہ جو زندہ لاشیں ہیں
دیکھ کے ان کی آنکھ سوالی آنکھ میں آنسو آئے
ٹھنڈا سینہ دھرتی کا ہے بھوک کے مارے ہیں سب
دن تیرہ اور رات ہے کالی آنکھ میں آنسو آئے
کیونکر ہم پردیس کو اپنا دیس کہیں بتلاؤ
کس ظالم نے رسم یہ ڈالی آنکھ میں آنسو
کس کو سینے سے لپٹائیں کس کا ماتھا چومیں
دیکھ کے گھر کا آنگن خالی آنکھ میں آنسو آئے
جس نے گھر کے باغیچے کو اپنے خون سے سینچا
چھوڑ گیا جب اس کا مالی آنکھ میں آنسو آئے
امجدؔ کیسی آگ لگی ہے لفظوں کے پانی میں
اجلی غزلیں ہو گئیں کالی آنکھ میں آنسو آئے