گیا وہ دور ہواؤں سے تنگ ہونے کا

گیا وہ دور ہواؤں سے تنگ ہونے کا
کوئی ملال نہیں اپنے سنگ ہونے کا


بسا ہوا ہے نگاہوں میں ایک ہی منظر
بڑا ہی شوق تھا عکاس رنگ ہونے کا


وہی جہان حوادث وہی کھلی آنکھیں
قریب مرگ ہے احساس دنگ ہونے کا


صدائے ساز جو بھاتی ہے دو گھڑی دل کا
گمان تار نفس پہ ہے چنگ ہونے کا


مجھے کسی سے بھی امجدؔ گلہ نہیں میں تو
تلاش کرتا ہوں موقع دبنگ ہونے کا


کھڑے رہو نہ مقابل ہر ایک کے امجدؔ
کہ اس طرح سے تو خطرہ ہے جنگ ہونے کا