بے پردہ ہو کے جب وہ لب بام آ گیا

بے پردہ ہو کے جب وہ لب بام آ گیا
آنکھوں پہ میری دید کا الزام آ گیا


تا صبح کروٹیں ہی بدلتے رہیں گے ہم
ان کا اگر خیال سر شام آ گیا


بیباکیوں پہ ان کی کسی نے نظر نہ کی
میری نگاہ شوق پہ الزام آ گیا


اس دور میں بہت ہی غنیمت کہو اسے
دکھ میں اگر کسی کے کوئی کام آ گیا


کتنی ہماری عمر محبت تھی مختصر
آغاز ہی کیا تھا کہ انجام آ گیا


دنیا کے غم بھی ہم نے اسی میں ڈبو دئے
امجدؔ نگاہ ناز کا جب جام آ گیا