Amit Satpal Tanwar

امت ستپال تنور

امت ستپال تنور کی غزل

    خود کی ہی قربانی ہے

    خود کی ہی قربانی ہے مجھ کو عید منانی ہے توبہ توبہ توبہ ہائے عشق بڑا من مانی ہے رستے رستے کانٹے ہیں کیسے جان بچانی ہے دریا دریا سوکھا پن سب کی آنکھیں پانی ہے تیرے عشق کی ہوا چلے اپنی خاک اڑانی ہے میری آنکھیں چمک اٹھی وہ چہرہ نورانی ہے میرے پیچھے اک لڑکی رادھا سی دیوانی ہے

    مزید پڑھیے

    کہیں زمین کے پار اور آسمان کے پار

    کہیں زمین کے پار اور آسمان کے پار پرندے ڈھونڈ رہے ہیں گھر اس جہان کے پار میں تھک چکا ہوں ترا انتظار کرتے ہوئے مگر پکار رہا ہے کوئی تھکان کے پار بچھڑ کے رو رہا ہے اس قدر کہانی سے پہنچ گیا تھا وہ کردار داستان کے پار میں تیرے وصل کی شدت سے خوب واقف ہوں مجھے ملو تو ملو جسم کے مکان کے ...

    مزید پڑھیے

    لاش کی طرح ہو چکا ہوں میں

    لاش کی طرح ہو چکا ہوں میں جانے کس طرح جی رہا ہوں میں خود کے اندر ہی قید ہو بیٹھا اپنے پنجرے میں ہی پڑا ہوں میں صرف یادیں ملیں گی کمرے میں اب یہاں سے چلا گیا ہوں میں کون مجھ کو گھماتا رہتا ہے کس کی انگلی پہ ناچتا ہوں میں میں جو منزل پہ خود نہیں پہنچا اسی منزل کا راستہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو روشنی ہوئی ایجاد

    پہلے تو روشنی ہوئی ایجاد بعد میں تیرگی ہوئی ایجاد شام تک آسمان سونا تھا رات کو چاندنی ہوئی ایجاد پہلے سورج نے دھوپ بانٹی پھر پیڑ بھی چھاؤں بھی ہوئی ایجاد رب نے تجھ کو بنایا پھر سوچا ہائے کیا سادگی ہوئی ایجاد پہلے آئی کنویں پہ پنہارن پھر مری پیاس بھی ہوئی ایجاد

    مزید پڑھیے

    کہنے والے کہہ جاتے ہیں

    کہنے والے کہہ جاتے ہیں سہنے والے ڈھ جاتے ہیں پیاسا پیاس بجھا لیتا ہے دریا پیاسے رہ جاتے ہیں اتنا مت رو آنسو کے ساتھ خواب بھی اکثر بہہ جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    یہ سناٹا ہے میں ہوں چاندنی میں

    یہ سناٹا ہے میں ہوں چاندنی میں مزا بھی خوب ہے آوارگی میں لبوں پر مسکراہٹ گال گیلے ترا غم گھل گیا میری خوشی میں ذرا سی دیر کو کھڑکی جو کھولے فرشتے گھومیں گے اس کی گلی میں گھڑی کے پیر تھکتے ہی نہیں کیا گھڑی ایجاد کی تھی کس گھڑی میں جو مٹی کے بنائے تھے خدا نے یہ ایسے لوگ ہے کوزہ ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے لب پہ نام آیا ہمارا

    تمہارے لب پہ نام آیا ہمارا اسی سے نام بھی چمکا ہمارا گھروں سے نکلے تھے پگڈنڈیوں پر سفر میں مل گیا رستہ ہمارا جو میرا غم مٹا سکتا تھا یاروں اسی نے غم نہیں سمجھا ہمارا

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسے وصل کی راتیں گزاری ہے میں نے

    کچھ ایسے وصل کی راتیں گزاری ہے میں نے تمام شب تیری صورت نہاری ہے میں نے ابھی سے سارا سمندر اچھال مارتا ہے ابھی تو دریا میں کشتی اتاری ہے میں نے یہ سارے رستے مجھے کھینچنے لگے ہے اب کچھ اتنا چیخ کے منزل پکاری ہے میں نے تمام عمر تری جستجو رہی مجھ کو تمام عمر سفر میں گزاری ہے میں ...

    مزید پڑھیے