Amit Satpal Tanwar

امت ستپال تنور

امت ستپال تنور کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    خود کی ہی قربانی ہے

    خود کی ہی قربانی ہے مجھ کو عید منانی ہے توبہ توبہ توبہ ہائے عشق بڑا من مانی ہے رستے رستے کانٹے ہیں کیسے جان بچانی ہے دریا دریا سوکھا پن سب کی آنکھیں پانی ہے تیرے عشق کی ہوا چلے اپنی خاک اڑانی ہے میری آنکھیں چمک اٹھی وہ چہرہ نورانی ہے میرے پیچھے اک لڑکی رادھا سی دیوانی ہے

    مزید پڑھیے

    کہیں زمین کے پار اور آسمان کے پار

    کہیں زمین کے پار اور آسمان کے پار پرندے ڈھونڈ رہے ہیں گھر اس جہان کے پار میں تھک چکا ہوں ترا انتظار کرتے ہوئے مگر پکار رہا ہے کوئی تھکان کے پار بچھڑ کے رو رہا ہے اس قدر کہانی سے پہنچ گیا تھا وہ کردار داستان کے پار میں تیرے وصل کی شدت سے خوب واقف ہوں مجھے ملو تو ملو جسم کے مکان کے ...

    مزید پڑھیے

    لاش کی طرح ہو چکا ہوں میں

    لاش کی طرح ہو چکا ہوں میں جانے کس طرح جی رہا ہوں میں خود کے اندر ہی قید ہو بیٹھا اپنے پنجرے میں ہی پڑا ہوں میں صرف یادیں ملیں گی کمرے میں اب یہاں سے چلا گیا ہوں میں کون مجھ کو گھماتا رہتا ہے کس کی انگلی پہ ناچتا ہوں میں میں جو منزل پہ خود نہیں پہنچا اسی منزل کا راستہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو روشنی ہوئی ایجاد

    پہلے تو روشنی ہوئی ایجاد بعد میں تیرگی ہوئی ایجاد شام تک آسمان سونا تھا رات کو چاندنی ہوئی ایجاد پہلے سورج نے دھوپ بانٹی پھر پیڑ بھی چھاؤں بھی ہوئی ایجاد رب نے تجھ کو بنایا پھر سوچا ہائے کیا سادگی ہوئی ایجاد پہلے آئی کنویں پہ پنہارن پھر مری پیاس بھی ہوئی ایجاد

    مزید پڑھیے

    کہنے والے کہہ جاتے ہیں

    کہنے والے کہہ جاتے ہیں سہنے والے ڈھ جاتے ہیں پیاسا پیاس بجھا لیتا ہے دریا پیاسے رہ جاتے ہیں اتنا مت رو آنسو کے ساتھ خواب بھی اکثر بہہ جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

تمام