Ameer Imam

امیر امام

ہندوستانی غزل کی نئی نسل کی ایک روشن آواز

One of the rising stars of new generation Indian urdu ghazal.

امیر امام کی غزل

    ہے کون کس کی ذات کے اندر لکھیں گے ہم

    ہے کون کس کی ذات کے اندر لکھیں گے ہم نہر رواں کو پیاس کا منظر لکھیں گے ہم یہ سارہ شہر اعلیٰ حکمت لکھے اسے خنجر اگر ہے کوئی تو خنجر لکھیں گے ہم اب تم سپاس نامۂ شمشیر لکھ چکے اب داستان لاشۂ بے سر لکھیں گے ہم رکھی ہوئی ہے دونوں کی بنیاد ریت پر صحرائے بے کراں کو سمندر لکھیں گے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کسی شخص کو کھونے کی تلافی ٹھہرا

    یہ کسی شخص کو کھونے کی تلافی ٹھہرا میرا ہونا مرے ہونے میں اضافی ٹھہرا جرم آدم تری پاداش تھی دنیا ساری آخرش ہر کوئی حق دار معافی ٹھہرا یہ ہے تفصیل کہ یک لمحۂ حیرت تھا کوئی مختصر یہ کہ مری عمر کو کافی ٹھہرا کچھ عیاں ہو نہ سکا تھا تری آنکھوں جیسا وہ بدن ہو کے برہنہ بھی غلافی ...

    مزید پڑھیے

    خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے

    خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے ہم نے اب اس کا سایہ دیوار کر لیا ہے جاتی تھی میرے دل سے جو تیرے آستاں تک دنیا نے اس گلی میں بازار کر لیا ہے دے داد آ کے باہر شہ رگ سے خوں ہمارا اس نے جو اپنا چہرہ گلنار کر لیا ہے بس چشم خوں فشاں کو ملتے نہیں ہیں آنسو ورنہ ترا مرکب تیار کر لیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے

    یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے خود کو سمیٹنے میں بکھرنا پڑا مجھے پھر خواہشوں کو کوئی سرائے نہ مل سکی اک اور رات خود میں ٹھہرنا پڑا مجھے محفوظ خامشی کی پناہوں میں تھا مگر گونجی اک ایسی چیخ کہ ڈرنا پڑا مجھے اس بار راہ عشق کچھ اتنی طویل تھی اس کے بدن سے ہو کے گزرنا پڑا ...

    مزید پڑھیے

    نیند کے بوجھ سے پلکوں کو جھپکتی ہوئی آئی

    نیند کے بوجھ سے پلکوں کو جھپکتی ہوئی آئی صبح جب رات کی گلیوں میں بھٹکتی ہوئی آئی دیدۂ خشک میں اک ماہیٔ بے آب تھی نیند چشمۂ خواب تلک آئی پھڑکتی ہوئی آئی اور پھر کیا ہوا کچھ یاد نہیں ہے مجھ کو ایک بجلی تھی کہ سینہ میں لپکتی ہوئی آئی آج کیا پھر کسی آواز نے بیعت مانگی یہ مری خامشی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے

    کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے یہ کس کے عکس ہیں تنہائیوں میں پڑتے ہوئے عجیب دشت ہے اس میں نہ کوئی پھول نہ خار کہاں پہ آ گیا میں تتلیاں پکڑتے ہوئے مری فضائیں ہیں اب تک غبار آلودہ بکھر گیا تھا وہ کتنا مجھے جکڑتے ہوئے جو شام ہوتی ہے ہر روز ہار جاتا ہوں میں اپنے جسم کی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی خوشی نہ کوئی رنج مستقل ہوگا

    کوئی خوشی نہ کوئی رنج مستقل ہوگا فنا کے رنگ سے ہر رنگ متصل ہوگا عجب ہے عشق عجب تر ہیں خواہشیں اس کی کبھی کبھی تو بچھڑنے تلک کو دل ہوگا بدن میں ہو تو گلہ کیا تماش بینی کا یہاں تو روز تماشا و آب و گل ہوگا ابھی تو اور بھی چہرے تمہیں پکاریں گے ابھی وہ اور بھی چہروں میں منتقل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3