نیند کے بوجھ سے پلکوں کو جھپکتی ہوئی آئی

نیند کے بوجھ سے پلکوں کو جھپکتی ہوئی آئی
صبح جب رات کی گلیوں میں بھٹکتی ہوئی آئی


دیدۂ خشک میں اک ماہیٔ بے آب تھی نیند
چشمۂ خواب تلک آئی پھڑکتی ہوئی آئی


اور پھر کیا ہوا کچھ یاد نہیں ہے مجھ کو
ایک بجلی تھی کہ سینہ میں لپکتی ہوئی آئی


آج کیا پھر کسی آواز نے بیعت مانگی
یہ مری خامشی جو پاؤں پٹکتی ہوئی آئی


رات گھبرا گئی سورج سے کہا ال مددے
وہ بصد ناز جو زلفوں کو جھٹکتی ہوئی آئی


ہو گئی خیر ترا نام نہ آیا لب پر
ایک آہٹ تری خوشبو میں مہکتی ہوئی آئی


وقت رخصت مری آنکھوں کی طرح چپ تھی جو یاد
اے مرے دل تری مانند دھڑکتی ہوئی آئی